رسائی کے لنکس

ترکی : ریفرنڈم میں آئینی اصلاحات کی منظوری


ترکی کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ تیس سالہ پرانے آئین میں ترامیم کے لیے اتوار کے روز کرائے گئے ریفرنڈم میں ساٹھ فیصد ووٹروں نے ترامیم کے مجوزہ پیکج کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ نئی اصلاحات ترکی میں جمہوریت کے لیے بہت اہم ہیں لیکن مخالفین کا موقف ہے کہ آئین میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کو کمزورکر سکتی ہے۔

ریفرنڈم کے نتائج سامنے آتے ہی وزیراعظم طیب اردگان کے حامیوں نے اُن کے حق میں یہ نعرے لگائے کہ ”ترکی کو تم پر فخر ہے“۔ ریفرنڈم کے نتائج بہت سے تجزیہ کاروں کے لیے حیران کن تھے کیوں کہ جائزہ رپورٹوں کے مطابق ترامیم کے حامیوں اور مخالفین میں سخت مقابلے کی توقع کی جارہی تھی۔

طیب اردگان نے ریفرنڈ م کے نتائج کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب میں کہا ہے کہ ”12 ستمبر کو جمہوریت کی فتح ہوئی“۔ اُنھوں نے کہا کہ ”صرف اُن لوگوں کو شکست ہوئی ہے جو فوجی بغاوت کے حامی ہیں۔ دونوں جنھوں نے ’ہاں‘ یا پھر ’نہ‘میں ووٹ دیے جیت گئے ہیں کیوں کہ جمہوریت سب کے لیے آگے بڑھی ہے“۔

آئین میں 26 مجوزہ ترامیم میں فوج کو سویلین عدالتوں کے سامنے جواب دہ ہونے سمیت خواتین اور تاجرتنظیموں کو زیادہ حقوق دینا شامل ہے۔ ایک اور شق کے مطابق 1980ء میں بغاوت کے ذمہ دار فوجی جرنیلوں کو حاصل استثناء بھی ختم کردیا گیا ہے جس کے تحت اُن کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا تھا۔

لیکن آئین میں کی جانے والی اصلاحات کے مخالفین، جن میں ترکی کی حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں، نے عدلیہ کے اختیارات میں کی جانے والی تبدیلی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے عدالتیں حکومت کے کنٹرول میں چلی جائیں گی۔

آئین میں ترامیم کے تحت آئینی عدالتوں میں ججوں کی تعداد گیارہ سے بڑھا کر سترہ کر دی جائے گی اور ججوں کی تعیناتی میں حکومت کی رائے بہت اہم ہوگی۔ ناقدین نے متنبہ کیا ہے کہ عدلیہ ملک میں حکمران جماعت پر نظر رکھنے والا آخری ادارہ ہے۔

حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اصلاحات سے جمہوریت مضبوط ہو گی۔ ترکی کے آئین میں تبدیلیوں کو یورپی یونین میں شامل ممالک نے خوش آئندہ قرار دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG