رسائی کے لنکس

بم دھماکوں کے بعد ترکی میں اضافی سکیورٹی اقدامات


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے دو خودکش حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 128 بتائی ہے جبکہ وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق 97 افراد ہلاک ہوئے۔

ترکی کے وزیر داخلہ سلامی الٹینوک نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہفتے کو انقرہ میں امن مارچ پر بمباری سے سبق سیکھنے کے بعد ترکی سکیورٹی کے اضافی احتیاطی اقدامات کر رہا ہے۔ یہ ترکی کی تاریخ میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ تھا۔

کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے دو خودکش حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 128 بتائی ہے جبکہ وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق 97 افراد ہلاک ہوئے۔

اتوار کو ہزاروں افراد نے انقرہ کی سڑکوں پر مظاہرے کیے جن میں سے کئی ترک حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔

کرد اکثریت والے جنوب مشرقی شہر دیارباقر میں بھی ہزاروں افراد نے بھی حملے میں ہلاک ہونے والوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مارچ کیا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ہفتے کو دہرے بم دھماکوں میں زخمی ہونے والوں میں سے 160 اب بھی اسپتال میں داخل ہیں، جبکہ 65 افراد انتہائی نگہداشت یونٹس میں زیر علاج ہیں۔

کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بم دھماکے جولائی میں شام کی سرحد کے قریب ہونے والے دو خود کش حملوں سے مماثلت رکھتے ہیں جن میں 33 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش کے شدت پسندوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ان دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’ہمارے اتحاد اور ہمارے ملک کے امن پر بیہمانہ حملہ ہے۔‘‘

انہوں نے حملے کے سوگ میں اپنی تین دن کی مصروفیات منسوخ کر دی ہیں۔

ادھر ناقدین نے حکومت کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور سکیورٹی فورسز پر الزام لگایا ہے کہ وہ امن ریلی کی حفاظت کرنے میں ناکام رہیں۔

ہفتہ کو مرکزی ریلوے اسٹیشن کے قریب یہ خود کش دھماکے اس وقت ہوئے جب یہاں حزب مخالف اور کرد کارکن ہزاروں کی تعداد میں امن ریلی کے سلسلے میں جمع تھے۔

XS
SM
MD
LG