رسائی کے لنکس

کم ترقی یافتہ ملکوں کا چوتھا اجلاس


کم ترقی یافتہ ملکوں کا چوتھا اجلاس
کم ترقی یافتہ ملکوں کا چوتھا اجلاس

عالمی معیشت آہستہ آہستہ عالمی اقتصادی بحران کے اثرات سے نکل رہی ہے۔ ایسے وقت میں ترکی اقوامِ متحدہ کی دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ملکوں کی چوتھی میٹنگ کی میزبانی کر رہا ہے ۔ دنیا کے یہ غریب ترین ملک غذائی اشیاء اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کی جد و جہد کر رہےہیں۔

اس پانچ روزہ کانفرنس کا افتتاح ترکی کے صدر عبداللہ گُل نے کیا۔ صدر گُل نے افتتاحی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اربوں ڈالر کی امداد کے با وجود، پہلے اجلاس کے بعد سے جو پیرس میں 1971 میں ہوا تھا، دنیا کے حالات بہتر نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا’’1971 میں سب سے کم ترقی یافتہ ملکوں کی تعداد 25 تھی ۔ آج یہ تعداد بڑھ کر 48 ہو گئی ہے ۔ یہ صورت حال باقی نہیں رہ سکتی ۔ اگرچہ سب سے کم ترقی یافتہ ملکوں میں دنیا کی 13 فیصد آبادی رہتی ہے، لیکن انہیں دنیا کی معیشت کی پیداوار کا صرف ایک فیصد حصہ ملتا ہے۔‘‘

جب سے اقوامِ متحدہ نے سب سے کم ترقی یافتہ ملکوں کی کیٹیگری بنائی ہے، صرف تین ملکوں نے اتنی ترقی کی ہے کہ ان کے نام اس فہرست سے نکالے گئے ہیں۔ یہ ملک ہیں بوستوانا، Cape Verde اور مالدیپ۔ اس فہرست میں وہ ملک شامل کیے جاتے ہیں جن کی فی کس سالانہ آمدنی 750 ڈالر سے کم ہو اور اس فہرست سے نکلنے کے لیے آمدنی میں اتنا اضافہ ہونا چاہیئے کہ وہ 900 ڈالر سے زیادہ ہو جائے ۔ دوسرے عوامل جنہیں سامنے رکھا جاتا ہے ان میں غذائیت کی کمی، بچوں کی اموات اور تعلیم کی سطح شامل ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ انھوں نے انتباہ کیا کہ غذائی اشیاء اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سب سے زیادہ اثر دنیا کے غریب ترین ملکوں پر پڑے گا۔انھو ں نے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں پر تنقید کی کہ انھوں نے امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں اپنے وعدے پورے نہیں کیے ہیں۔’’ماضی میں بڑی فیاضی سے امداد کے وعدے کیے گئے ہیں۔ اس لیے جوابدہی بہت اہم ہے۔ اب اقوام ِ متحدہ ترقی کی رپورٹ کی نگرانی کرے گی اور یہ بھی دیکھے گی کہ امداد کے وعدے کس حد تک پورے کیے گئے ہیں۔‘‘

لیکن کانفرنس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ کچھ امید افز علامتیں نظر آنے لگی ہیں۔ حالیہ برسوں میں، بہت سے ملکوں نے ترقی کی نسبتاً اونچی شرح ریکارڈ کرنا شروع کر دی ہے۔ سیکرٹری جنرل بان نے زیادہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کوئی خیرات نہیں ہے بلکہ عالمی اقتصادی ترقی کو قائم رکھنے میں مدد دینے کا موقع ہے ۔

اس میٹنگ میں ماضی کے مقابلے میں پرائیویٹ شعبے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کانفرنس کا ایک اہم موضوع یہ ہے کہ سب سے کم ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان ایک دوسرے کی مدد پر زیادہ توجہ دی جائے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے پر بھی زور دیا جا رہا ہے ۔

عالمی بنک کے مینجنگ ڈائریکٹر Ngozi Okonjo-Iseala نے کہا ہے کہ ایک ابھرتی ہوئی معیشت کو اقوامِ متحدہ کی کانفرنس کی میزبانی کے لیے منتخب کرنے کا فیصلہ انتہائی اہم ہے۔’’یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ترکی اور دوسرے ابھرتے ہوئے ملک ان کانفرنسوں کی میزبانی کریں۔ ابھرتی ہوئی منڈیاں ترقی کر رہی ہیں، غریب ملک ان کی طرف دیکھ رہے ہیں کیوں کہ کچھ عرصے پہلے وہ خود بھی غربت سے نکلنے کی جدوجہد میں مصروف تھے ۔ بلکہ بہت سی ابھرتی ہوئی منڈیوں والے ملکوں میں آج بھی غریب لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ لہٰذا یہ بات اہم ہے کہ ترکی نے اس کانفرنس کی میزبانی کی پیشکش کی ہے کیوں کہ وہ دنیا کے غریب ملکوں کوبہت سی باتوں میں شریک کر سکتا ہے۔‘‘

اس کانفرنس کے اخراجات ترکی ادا کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بین الاقوامی ترقی میں مدد دینے کی غرض سے اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے بہت سے لوگوں کے اخراجات بھی ادا کر رہا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ترکی کی مجموعی قومی پیداوار 2001 سے اب تک تین گنی ہو گئی ہے اور وہ اس قابل ہے کہ اس قسم کے اخراجات اد ا کرسکے۔ گذشتہ سال ترکی نے ایک ارب ڈالر امداد کے طور پر دیے تھے ۔ یہ رقم ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی ایک فیصد سے کم ہے ، یعنی ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں ترکی نے اپنی امداد کی رقم دس گنا کر دی ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی میزبانی کے ذریعے ترکی خود کو ترقی یافتہ اور سب سے کم ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان ایک پُل کی حیثیت دینا چاہتا ہے ۔

XS
SM
MD
LG