رسائی کے لنکس

چین: فسادات کے الزام میں دو افراد کو سزائے موت


سنکیانگ کے بڑے شہروں میں عموماً سکیورٹی کے سخت انتظامات دیکھنے میں آتے ہیں (فائل)
سنکیانگ کے بڑے شہروں میں عموماً سکیورٹی کے سخت انتظامات دیکھنے میں آتے ہیں (فائل)

چین کی حکومت اس خطے میں ہونے والے بیشتر پرتشدد واقعات کا الزام مسلمان علیحدگی پسندوں پر عائد کرتی آئی ہے

چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کی ایک عدالت نے رواں سال ہونے والے فسادات میں ملوث ہونے پر دو ملزمان کو سزائے موت جب کہ ایک کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

چین کے اس مغربی علاقے میں اپریل میں ہونے والے فسادات میں کم از کم 21 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں ملوث ہونے کے الزام میں پانچ افراد پر صوبے کے شہر کاشغر کی ایک عدالت میں مقدمہ چلایا جارہا تھا۔

پیر کو عدالت نے اپنے فیصلے میں ملزمان پر عائد "دہشت گردی" اور "قتلِ عمد" کے الزامات درست قرار دیتے ہوئے دیگر دو ملزمان کو نو، نو سال قید کی سزائیں سنائیں۔

سنکیانگ کی حکومت نےان فسادات کی ذمہ داری کسی گروہ یا تنظیم پر عائد نہیں کی تھی لیکن ماضی میں چین کی حکومت اس خطے میں ہونے والے بیشتر پرتشدد واقعات کا الزام مسلمان علیحدگی پسندوں پر عائد کرتی آئی ہے جو علاقے میں 'مشرقی ترکستان' نامی آزاد ریاست کے قیام کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق سرکاری بیان میں ملزمان کی قومیت نہیں بتائی گئی ہے لیکن ان کے ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام ملزمان کا تعلق ایغور نسل سے ہے۔

سنکیانگ میں ترکی زبان بولنے والے ایغور نسل کے مسلمانوں کی اکثریت ہے جو چین کی مرکزی حکومت کی جانب سے اپنے مذہب، زبان اور ثقافت پر عائد پابندیوں کی شکایت کرتے رہے ہیں۔

ایغور نسل کے مسلمان بیجنگ حکومت پر سنکیانگ میں چین کی اکثریتی ہان نسل کے افراد کی آبادکاری کا الزام بھی عائد کرتے ہیں جس کا مقصد، ان کے مطابق، صوبے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنا ہے۔

اس کے برعکس چینی حکومت کا کہنا ہے کہ علاقے کے رہائشیوں کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔

جلاوطن ایغور مسلمانوں کی ایک تنظیم 'ورلڈ ایغور کانگریس' کے مطابق اپریل میں ہونے والے فسادات کا آغاز "چینی مسلح افراد" کے ہاتھوں ایک نوجوان ایغور کے قتل سے ہوا تھا جس پر مقامی مسلمان مشتعل ہوگئے تھے۔

سنکیانگ میں حالیہ برسوں کے دوران میں ایغور مسلمانوں اور ہان نسل کے آبادکاروں کے درمیان خون ریز جھڑپوں اور فسادات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

جولائی 2009ء میں صوبے کے صدر مقام ارمچی میں اسی نوعیت کی جھڑپوں میں 200 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ رواں سال جون میں بھی اسی طرز کے فسادات میں 35 افراد مارے گئے تھے۔
XS
SM
MD
LG