رسائی کے لنکس

برطانیہ: سماجی کارکن ساجدہ مغل کے لیے شاہی خطاب


ساجد مغل جولائی سات کے بم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والی واحد برطانوی مسلمان خاتون ہیں جنھوں نے اس حادثے میں معجزانہ طور پر بال بال بچ جانے کے بعد خود کو کمیونٹی خدمات کے لیے وقف کر دیا ہے

لندن کے ایک خیراتی ادارے کی سربراہ ساجدہ مغل کو شاہی خطاب 'او بی ای' سے نوازا گیا ہے۔

ساجدہ نے جولائی 2005 کے لندن بم دھماکوں میں زندہ بچ جانے کے بعد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے کیریئرکو چھوڑ کر کمیونٹی کے اندر کام کرنے کا عزم کیا اور جان ٹرسٹ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

ساجد ان بم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والی واحد برطانوی مسلمان خاتون ہیں جنھوں نے اس حادثے میں معجزانہ طور پر بال بال بچ جانے کے بعد خود کو کمیونٹی خدمات کے لیے وقف کر دیا ہے۔ وہ خواتین کے حقوق کے فروغ کی سرگرم کارکن ہیں جو خاص طور پر نسلی اقلیتوں کی خواتین کو معاشرے میں ضم کرنے کے لیے ان کی مدد کر تی ہیں۔

جان ٹرسٹ کے مطابق ملکہ برطانیہ کی 'نیو ایئرآنرز 2015 ' کی فہرست میں کمیونٹی ہم آہنگی اور بین الاعقائد مکالمے کی خدمات پر متحرک کارکن ساجدہ مغل کو اعلیٰ ترین شاہی اعزاز آرڈر آف برٹش ایمپائر کے لیے نامزد کیا گیا اور حال ہی میں انھوں نے بکنگھم پیلس میں ہونے والی ایک باوقار تقریب میں شہزادہ چارلس کے ہاتھوں سے اپنا اعزاز وصول کیا ہے۔

اس موقع پرساجدہ مغل نے دولت اسلامیہ میں شمولیت کے لیے تین برطانوی طالبات کے شام چلے جانے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ انٹرنیٹ کی طاقت کے بارے میں اب تک غلط اندازے لگائے گئے ہیں "ہمیں آن لائن انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔"

جس وقت لندن بم دھماکے کا واقعہ ہوا اس وقت ساجدہ مغل کی عمر 22 سال تھی وہ صبح دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلی تھیں اور اسی زیر زمین ٹرین پکاڈلی لائن میں سوار تھیں جسے کنگز کراس سے رسل اسکوائر جانے والے راستے پر 19 سالہ جرمین لنڈسے نے بم سے اڑا دیا تھا مگر وہ خوش قسمتی سے اس ہولناک حملے میں زندہ بچ گئی تھیں۔

ساجدہ مغل کہتی ہیں کہ جولائی سات کےبم دھماکوں کے صدمے کے بعد وہ پھر کبھی ایسا حادثہ نہیں دیکھنا چاہتیں۔ "یہ ایک موت سے قریب اور ناقابل یقین حد تک تکلیف دہ تجربہ تھا ،اس حادثے نے میری زندگی بدل دی جبکہ اس سے پہلے میں سرمایہ کاری کے بینک میں بھرتیوں کی سربراہ کے عہدے پر کام کر رہی تھی لیکن اس واقعہ نےمجھے اپنے طرز زندگی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا اور میرا کام اس طرح کے حملوں کو روکنے کی کوشش ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ "شمالی لندن میں وڈ گرین میں واقع جان ٹرسٹ کے لیے کام کرنا میرا شوق ہے ورنہ یہ کام کرنا مشکل تھا۔ ہمارا ہر دن مختلف ہوتا ہے کسی دن ہم نسوانی ختنے سے آگاہی کے پروگرام کے تحت اسکولوں کا دورہ کرتے ہیں تو کبھی حکومتی وزراء کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کے لیے ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔"

ساجدہ مغل کے مطابق جبری شادی اور نسوانی اعضاء کی قطع وبرید جیسے ثقافتی مسائل کے لیے لوگوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور ان کا ادارہ اس سلسلے میں نوجوان لڑکیوں سے بات کرتا ہے اور ان کے حقوق کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کا ادارہ دہشت گردی کو روکنے اور ماؤں کو اپنے بچوں کے ساتھ مشغول کرنے کے لیے کام کر رہا ہے جبکہ ادارے نے حال ہی میں انٹرنیٹ انتہا پسندی کے حوالے سے کمیونٹی حل کے لیے کام کرنے کے بارے میں ایک رپورٹ بھی شائع کی ہے۔

ان کے ادارے کو اب تک متعدد مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ اور اعزازت سے نوازا گیا ہے جن میں سینٹر ایواڈ فار ایکسیلینس، سینٹر فار سوشل جسٹس اچیورز، جی جی ٹو لیڈر شپ ایواڈ، برٹش مسلم ایواڈ، ایشین اچیورز ایواڈ اور دیگر ایواڈز شامل ہے۔

ساجدہ مغل کو ان کی سماجی خدمات کی وجہ سے لندن کے اخبار ایوننگ اسپیشل نے سال 2014 کی 1000 بااثر برطانوی لوگوں کی فہرست کے لیے نامزد کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG