رسائی کے لنکس

برطانیہ کا سیاسی منظرنامہ: ای یو رکنیت اور ہم جنس شادیاں


بہت سے معاملات برطانوی اسمبلی 'ہاؤس آف کامن' میں بھی زیر بحث ہیں جن میں سر فہرست مسئلہ برطانیہ کا یورپی یونین میں اپنی رکنیت سے متعلق فیصلہ ہے۔

برطانیہ میں ان دنوں شدید سردی کی لہر آئی ہوئی ہے مگر جہاں تک برطانیہ کی سیاسی فضا کا تعلق ہے تو یہاں گرما گرمی کا ماحول عروج پر ہے۔

سال 2013کی ابتداء سے ہی سیاسی مبصرین ملک کو درپیش اہم مسائل پر بحث مباحثہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ جبکہ بہت سے معاملات برطانوی اسمبلی 'ہاؤس آف کامن' میں بھی زیر بحث ہیں جن میں سر فہرست مسئلہ برطانیہ کا یورپی یونین میں اپنی رکنیت سے متعلق فیصلہ ہے۔

وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے یورپی یونین EU)) میں برطانیہ کے مستقبل کا فیصلہ تاحال نہیں ہو سکا ہے۔ ان کی اس اہم تقریر کا انتظار اس وقت شروع ہوا تھا جب پہلی بار ڈیوڈ کیمرون نے جولائی کے مہینے میں کہا تھا کہ وہ یورپی یونین میں برطانیہ کی فعال رکنیت کے بارے میں اہم فیصلہ کرنے والے ہیں۔

کچھ روز قبل ہی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے اس معاملے میں پیش رفت نظر آئی جب انھوں نے یورپی یونین کی رکنیت یا دستبرداری کا فیصلہ برطانوی عوام کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنی وزارت کی میعاد ختم ہونے پر 2015ء میں ہونے والے عام انتخاب جیتنے کے بعد اس معاملے پر عوام کی رائے طلب کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانوی عوام یورپی یونین میں برطانیہ کی رکنیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نظر آتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اس معاملے کو اپنی اگلی مدت کے وسط تک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے حل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ڈیوڈ کیمرون کے اس بیان پر مخالف سیاسی حلقوں کے علاوہ معاشی ماہرین نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

ڈپٹی وزیر اعظم نک کلیگ کے مطابق، "برطانیہ کو کچھ مزید برسوں کے لیے غیر یقینی صورت حال میں چھوڑا جا رہا ہے جس سے برطانیہ کی معیشت کو نقصان پہنچے گا"۔

سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے اس بیان پر کہا ہے کہ کیمرون نے خود اپنے ہی سر پر بندوق تان لی ہے"۔

جبکہ اتحادی جماعت 'لبرل' کے رہنما ای ڈی ملی بینڈ کےمطابق، "یورپی یونین میں برطانیہ کی رکنیت کے مستقبل کا فیصلہ عوام کے ووٹوں سے کرنا قومی معیشت کے مفاد کے ساتھ جوا کھیلنے کے مترادف ہو گا"۔

برطانیہ کو یورپی یونین میں اپنی رکنیت بر قرار رکھنے کے لیے امریکہ کی حمایت حاصل ہے مگر برطانیہ یورپی یونین میں اپنی ایک مستحکم جگہ چاہتا ہے اور کسی صورت بھی غیر فعال رکنیت کے لیے تیار نہیں جس کی اسے برسلز کی جانب سے پیشکش کی جا رہی ہے۔

برطانوی حزب اختلاف کی سیاسی جماعت ' ٹوری' کی جانب سے اس اعلان کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

برطانوی سیاست پر حاوی دوسرا اہم معاملہ 'ہم جنس شادیوں کا قانون' ہے جو ان دنوں برطانیہ کی اسمبلی میں زیر بحث ہے۔

ہم جنس شادی کا قانون منظوری سے قبل ہی متنازع شکل اختیار کر چکا ہے جس پرمذہبی اور سماجی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے۔ سخت مذہبی سوچ رکھنے والے کیتھولک اور رومن چرچ کے علاوہ مسلمانوں کی جانب سے بھی 'گے میرج' کو 'سول شادی' کا درجہ دینے کی مخالفت ہورہی ہے۔

ادھر حکومت کی اپنی سیاسی جماعت 'کنزرویٹو' کے بہت سے وزراء اس قانون کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم حکومت کی اتحادی جماعتوں کی یقین دہانی کی وجہ سے ڈیوڈ کیمرون اس قانون کو پاس کروانے کی پوزیشن میں نظر آرہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ قانون منظور ہو جاتا ہے تو اس کےنفاذ میں کیا دقتیں سامنے آتی ہیں۔

گزشتہ روز سرکاری محکمے کی جانب سے ملکی معیشت کی تنزلی کے اعداد و شمار پر مبنی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے بعد ڈیوڈ کیمرون اور ان کے وزیر خزانہ جارج اسبورن کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کی معیشت گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں o.3 فیصد گر گئی ہے جبکہ اسی معیشت لندن اولمپک 2012 میں جولائی سے ستمبر کے مہینوں میں0.9 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔

معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ اس تنزلی میں اضافہ ممکن ہے کیونکہ برطانیہ کا خراب موسم اور برف باری کے باعث کاروباری ادارے مستقل نقصان اٹھارہے ہیں۔
XS
SM
MD
LG