رسائی کے لنکس

برطانیہ میں گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے


برطانیہ میں 25 اکتوبر مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے گھڑیوں کی سوئیوں کو ایک بار پھر سے ایک بجے کے وقت پر واپس لوٹا دیا جائے گا۔

اکتوبر کے مہینے کے آخری اتوار کو یورپ کے بیشتر ملکوں سمیت برطانیہ میں موسم سرما کے معیاری وقت کا آغاز ہو رہا ہے اس روز لوگ اپنی گھڑیاں ملک بھر کی گھڑیوں کے ساتھ ایک گھنٹہ پیچھے کرتے ہیں۔

ڈے لائٹ سیونگ ٹائم (ڈی ایس ٹی) دراصل معیاری وقت میں تبدیلی ہے، جس کا مطلب ہے کہ طلوع شمس اور غروب آفتاب گھڑیوں کے مطابق ایک گھنٹہ پہلے ہوں گے۔

برطانیہ میں 25 اکتوبر مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے گھڑیوں کی سوئیوں کو ایک بار پھر سے ایک بجے کے وقت پر واپس لوٹا دیا جائے گا۔

برطانیہ میں اتوار کا دن چوبیس گھنٹے کا ہونے کے باوجود، اس کی طوالت ایک اضافی گھنٹے کے ساتھ 25 گھنٹوں پر محیط ہو گی اور سب کو رات میں سونے کے لیے ایک اضافی گھنٹہ ملے گا۔

دنیا کے 70 سے زائد ممالک میں ڈے لائٹ سیونگ ٹائم کے تحت موسم گرما میں گھڑیوں کو ایک گھنٹہ طویل کرنے کا تجربہ کیا جاتا ہے بنیادی طور پر یہ نظام موسم گرما میں روشنی کو زیادہ استعمال کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔

ڈے لائٹ سیونگ ٹائم یا دن کی روشنی کی بچت کے نظام پر عمل درآمد کرنے والے زیادہ تر مغربی ممالک میں اکتوبر میں گھڑیاں اس لیے پیچھے کر دی جائیں گی کیونکہ مارچ کے آخری اتوار کو موسم گرما کے معیاری وقت کے آغاز پر گھڑیوں کو ایک گھنٹہ آگے کیا گیا تھا۔

جبکہ موسم سرما کی آمد سے پہلے جب موسم خزاں میں دن چھوٹے ہونے لگتے ہیں تو سورج کی روشنی کے حساب سے گھڑیوں کو ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے تاکہ لوگ روشنی میں زیادہ کام کر سکیں۔

گھڑیوں کو سال میں دو بار عام طور پر ہفتہ وار چھٹی کے دن یعنی ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

موسم بہار کے آغاز کے ساتھ 27 مارچ 2016ء سے برطانیہ میں گھڑیوں کو ایک گھنٹے آگے کر دیا جائے گا جس سے دن 23 گھنٹوں کا ہوتا ہے۔

اس دن کے آغاز اور اختتام کی تاریخ مختلف محل وقوع اور سال کے ساتھ مختلف ہوتی ہے جیسا کہ یورپی ممالک میں موسم گرما میں مارچ کی آخری اتوار اور اکتوبر میں آخری اتوار کو ڈے لائٹ سیونگ ٹائم کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

امریکہ اور کینیڈا میں ڈے لائٹ سیونگ ٹائم کا مشاہدہ مارچ کی دوسری اتوار اور نومبر کی پہلی اتوار کو کیا جاتا ہے رواں برس امریکہ اور کینیڈا میں پہلی نومبر رات دو بجے گھڑیوں کی سوئیوں کو ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا جائے گا۔

سورج کی روشنی کی بچت کے نظام کی تاریخ:

آج دن کی روشنی کی بچت یا ڈی ایس ٹی کے نظام کو توانائی کی بچت اور دن کی روشنی کے بہتر استعمال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ یہ خیال قدیم دور میں بھی موجود تھا جس کے بعد اسے سائنس دانوں کی طرف سے اسے پیش کیا گیا۔

قدیم تہذیبیں:

دن کی روشنی کی بچت کے نظام کو اگرچہ لگ بھگ سو سال پہلے اپنایا گیا تھا لیکن خیال ہے کہ قدیم تہذیبیں بھی اس کی مشق میں مصروف تھیں مثال کے طور پر رومن پانی کی گھڑیاں سال کے مختلف مہینوں میں مختلف اسکیل استعمال کرتی تھیں۔

بینجمن فرینکلن:

امریکی موجد اور سیاست دان بینجمن فرینکلن نے 1774ء میں روشنی کی لاگت کے لیے ایک اقتصادی منصوبہ نامی ایک مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے موم بتی کے استعمال میں کمی کے لیے لوگوں کو جلدی بستر سے نکل کر قدرتی روشنی کا زیادہ استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

امریکہ میں پہلی بار اس نظام پر 1918ء میں عمل درآمد کیا گیا تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد اسے بہت سے ملکوں نے ترک کر دیا لیکن 1970ء میں توانائی کے بحران کے نتیجے میں یورپ اور شمالی امریکہ میں بڑے پیمانے پر اسے پھر سے اپنایا گیا۔

جارج ورنن ہڈسن:

ڈے لائٹ سیونگ ٹائم کی ایجاد کے موجد سمجھے جاتے ہیں۔ نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے جارج ہڈسن وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے سب سے پہلے اس جدید تصور کو پیش کیا۔

ہڈسن نے 1895ء میں سورج کی روشنی کی اہمیت پر 'ویلنگٹن فلسفیانہ معاشرے' کے نام سے ایک دستاویز لکھی، جس میں انھوں نے کام کی شفٹ کو اکتوبر میں دو گھنٹے آگے بڑھانے اور مارچ میں دو گھنٹے پیچھے کرنے کی تجویز پیش کی۔

تاہم جرمنی نے جنگ عظیم اول کے زمانے میں کوئلے کی قلت کے خاتمے کے لیے اپنے اتحادی ممالک آسٹریا اور ہنگری کے ساتھ مل کر کوئلے کی بچت کے لیے 30 اپریل 1916ء میں اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔

ولیم ویلیٹ:

برطانیہ میں پہلی بار ڈے لائٹ سیونگ ٹائم کا خیال ایک مشہور تاجر اور بلڈر ولیم ویلیٹ کے دماغ میں آیا تھا جنھوں نے غور کیا کہ برطانیہ میں لوگ موسم گرما میں طلوع آفتاب کے بعد بھی سوتے رہتے ہیں۔

انھوں نے 1907ء میں اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 'روشنی کی بربادی' کے عنوان سے ایک پمفلٹ میں دلیل دی تھی کہ گھڑیوں کو سال کے مختلف اوقات میں تبدیل کیا جانا چاہیئے تاکہ لوگ دن کے زیادہ وقت کا استعمال کر سکیں انھوں نے مشورہ دیا اپریل کی چار اتوار گھڑیوں کو 20 منٹ آگے کر دیا جائے اور ستمبر کی چار اتوار گھڑیوں کو 20 منٹ پیچھے کردیا جائے۔

اگرچہ ویلیٹ کی تجویز کو رابرٹ پیئرس اور ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے پسند کیا گیا تاہم ونسٹن چرچل کی طرف سے اس پر اعتراضات بھی اٹھائے گئے اور برطانیہ میں 21 اپریل 1916ء میں اس منصوبہ بندی کو باقاعدہ ایک قانون کی شکل دی گئی جسے دیکھنے کے لیے ویلیٹ زندہ نہیں رہا تھا۔

XS
SM
MD
LG