رسائی کے لنکس

بچوں کے حقوق کا عالمی معاہدہ اور امریکی موقف


فائل فوٹو
فائل فوٹو

20 سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا کہ اقوامِ متحدہ نے تمام بچوں کے تعلیم، غذائیت، رہائشی سہولتیں اور دوسری بنیادی ضرورتوں کے حصول کے حقوق اور انہیں استحصال اور جبری فوجی بھرتی سے بچانے کے لیے ایک معاہدہ تیار کیا تھا۔ آج صرف دو ملک ایسے ہیں جنہوں نے اب تک اس معاہدے کی توثیق نہیں کی ہے ۔یہ ملک ہیں امریکہ اور صومالیہ۔امریکہ کی طرف سے بچوں کے حقوق کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے کنونشن کی توثیق اس لیے نہیں ہو سکی ہے کہ بعض لوگوں کی نظر میں، اس معاہدے سے والدین کے حقوق محدود ہو جائیں گے، اور گھریلو معاملات میں حکومت کی مداخلت میں اضافہ ہو جائے گا۔

اس کنونشن میں تسلیم کیا گیا ہے کہ بچوں کی خصوصی ضروریات ہوتی ہیں اور وہ اپنی حفاظت اور ضرورتوں کی تکمیل کے لیے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ کنونشن میں ایک طریقۂ کار فراہم کیا گیا ہے جس کے ذریعے اس بات کی نگرانی کی جا سکتی ہے کہ بچوں کی ضرورتوں پرتوجہ دی جا رہی ہے اور ان کی فراہمی کو بہتر بنایا جا رہا ہے ۔

جارجیا یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر جوناتھن ٹوڈرز کا خاص مضمون نوجوانوں کے حقوق کے مسائل ہیں۔ وہ کہتےہیں’’بچوں کے حقوق کا کنونشن بچوں کے انسانی حقوق کا سب سے زیادہ جامع معاہدہ ہے ۔ اب تک جتنے ملک انسانی حقوق کے اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہیں ان کی تعداد کسی بھی معاہدے کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔درجنوں ملکوں میں اس معاہدے کی وجہ سے قوانین میں، پالیسیوں میں اور بچوں کے بارے میں لوگوں کی رویوں میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں اب بچوں کے ساتھ خراب سلوک میں کمی آئی ہے ۔‘‘

امریکہ نے اس معاہدے پر 1990 کے عشرے کے وسط میں دستخط کیے تھے لیکن اب تک کسی انتظامیہ نے اسے سینٹ کے سامنے توثیق کے لیے پیش نہیں کیا ہے ۔ تا ہم امریکہ نے اس کنونشن کے تحت بنائے جانے والے دو پروٹوکولز کو قبول کر لیا ہے جن میں سے ایک میں بچوں کو سپاہیوں کے طور پر استعمال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔

2008 میں صدارتی امید وار کی حیثیت سے، براک اوباما نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ نے اس کنونشن کی پوری طرح توثیق نہیں کی ہے ۔ گذشتہ سال، اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر، سوزن رائس نے کہا تھا کہ امریکہ پوری دنیا میں نوجوانوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی فلاح کے لیے کمر بستہ ہے ۔’’امریکہ بچوں کی فلاح کے عزم پر پوری طرح قائم ہے اور اس میں بچوں کو جنگ کی لعنت سے محفوظ رکھنا شامل ہے ۔‘‘

لیکن امریکی سینٹ میں عنقریب اس کنونشن پر ووٹنگ کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ اسے توثیق کے لیے مطلوبہ دو تہائی ووٹ مل سکیں گے یا نہیں۔

قدامت پسند قانون سازوں اور سر گرم کارکنوں کی طرف سے اس معاہد ے کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے جو اسے غیر ضروری اور والدین کے حقوق اور امریکہ کے اقتدارِ اعلیٰ کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

مائیکل فیرس آن لائن گروپ پیرنٹل رائٹس۔ڈاٹ۔اوآرجی ParentalRights-dot-org کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’سوال یہ ہے کہ امریکہ میں رہنے والے گھرانوں کے لیے قانون کسے بنانا چاہیئے؟ کیا امریکہ کو اپنے قانون خود بنانے چاہئیں یا امریکہ کی داخلی پالیسیاں کسی بین الاقوامی قانون کے تحت ہونی چاہئیں یعنی یہ کہ بچوں کو کس اسکول میں جانا چاہیئے، بچوں کو آداب کیسے سکھائے جائیں، بچوں کو کتنی بار چرچ میں جانا چاہیئے ؟‘‘

فیرس کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے کنونشن کی بنیاد وہ اندازِ فکر ہے جس کے تحت والدین کے اختیار کو سرکاری اقدامات کے تحت کر دیا جاتا ہے اور قومی اقتدار اعلیٰ پر عالمی اجتماعی نظریے کو فوقیت مل جاتی ہے ۔ لیکن جوناتھن ٹوڈرز کہتے ہیں کہ جن ملکوں نے اس کنونشن کی توثیق کر دی ہے انہیں ایسی رپورٹیں ملتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ برتاؤ کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن ان سفارشات کی پابندی لازمی نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ اقوام متحدہ کے عہدے دار امریکہ میں والدین کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش کیسے کریں ، لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے ہتھکنڈے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جب دنیا کا سب سے طاقتور ملک پوری طرح اس کوشش میں شرکت نہیں کرتا تو بچوں کی حفاظت کی عالمی کوششیں متاثر ہوتی ہیں۔

جوناتھن کہتے ہیں’’ساری دنیا میں بچوں کے حقوق اور ان کی فلاح کو یقینی بنانے کے لیے، بلا شبہ ، امریکہ اہم رول ادا کر سکتا ہے ۔امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ اگر وہ اس کنونشن میں فریق بن جائے تو وہ بچوں کے حقوق کی سب سے زیادہ موئثر وکالت کر سکتا ہے ۔ آج کل ہم جب اس کنونشن کی افادیت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بالکل اس طرح ہوتا ہے کہ آپ اپنی پسندیدہ ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں جب کہ اس کا سب سے اچھا کھلاڑی ٹیم سے باہر ہے ۔‘‘

تا ہم معاہدے کی توثیق کے امریکی مخالفین ان دلیلوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ بعض قانون سازوں نے امریکی آئین میں ایک ترمیم کا مسودہ تیار کیا ہے جس کے تحت والدین کے حقوق اور ان کی خود مختاری کو آئین میں محفوظ کر دیا جائے گا اور امریکہ میں مستقبل میں کبھی بھی اس کنونشن کو یا اسی قسم کے اقدامات کو منظور کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔

XS
SM
MD
LG