رسائی کے لنکس

شام میں دو غیر ملکی صحافیوں سمیت 19 افراد ہلاک


شام میں دو غیر ملکی صحافیوں سمیت 19 افراد ہلاک
شام میں دو غیر ملکی صحافیوں سمیت 19 افراد ہلاک

پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شامی حزبِ اختلاف کے ایک اہم اتحاد کے رہنماؤں نے شام میں جاری لڑائی میں پھنسے افراد تک امداد کی فراہمی یقینی بنانے کا واحد راستہ غیر ملکی فوجی مداخلت کو قرار دیا ہے

شام میں گزشتہ 10 ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے گڑھ حمص پر سرکاری افواج کی بےرحمانہ بمباری کے نتیجے میں بدھ کو دو مغربی صحافیوں سمیت کم از کم 19 افراد ہلاک ہوگئے۔

شام میں سرکاری افواج کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے پیشِ نظر اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ وہ ادارے سے منسلک امدادی سرگرمیوں کے اعلیٰ ترین عہدیدارویلیری اموس کو شام بھیجنا چاہتا ہے تاکہ امدادی اہلکاروں کے لیے مستحقین تک ہنگامی امداد پہنچانے کی اجازت حاصل کی جاسکے۔

لیکن فرانس کے دارالحکومت پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شامی حزبِ اختلاف کے ایک اہم اتحاد کے رہنماؤں نے شام میں جاری لڑائی میں پھنسے افراد تک امداد کی فراہمی یقینی بنانے کا واحد راستہ غیر ملکی فوجی مداخلت کو قرار دیا ہے۔

دریں اثنا، فرانسیسی حکومت نے شامی افواج کی بمباری سے ہلاک ہونے والے دونوں صحافیوں کی شناخت ظاہر کردی ہے۔ فرانسیسی حکام کے مطابق ہلاک شدگان میں جنگوں کی رپورٹنگ کے لیے مشہور امریکی صحافی میری کالوین بھی شامل ہیں جو برطانوی اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ کے لیے کام کرتی تھیں۔

حمص میں ہلاک ہونے والے دوسرے صحافی فرانسیسی فوٹو گرافر ریمی اوکلک ہیں جو ضلع حمص میں باغیوں کے زیرِ انتظام علاقے بابا امر میں قائم کیے گئے ایک عارضی میڈیا کیمپ پر سرکاری افواج کی بمباری سے ہلاک ہوئے۔

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کیمپ پر حملے میں کئی صحافی زخمی بھی ہوئے ہیں لیکن اس بارے میں تاحال تفصیلات معلوم نہیں ہوسکی ہیں۔

پیرس میں قائم صحافیوں کے حقوق کی تنظیم 'رپورٹرز وِد آئوٹ بارڈرز' کے نمائندوں نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ وہ اس امکان کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ کیا شامی افواج نے جان بوجھ کر ذرائع ابلاغ کے کیمپ کو نشانہ بنایا۔

ادھر شامی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکام کو ان صحافیوں کی شام میں موجودگی کا علم نہیں تھا۔

واضح رہے کہ سیاسی بحران کے آغاز کے بعد سے شامی حکومت نے ملک میں غیر ملکی صحافیوں کا داخلہ محدود کردیا ہے اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

صحافیوں کی ہلاکت پر فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر بشار الاسد کی سربراہی میں قائم شامی حکومت کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے۔

فرانس کے وزیرِ خارجہ آلاں ژوپے نے صحافیوں کی ہلاکت کو "قتل" قرار دیا ہے جب کہ امریکی محکمہ خارجہ نے ان ہلاکتوں کو "شامی حکومت کی بےشرم مظالم کی ایک اور مثال" گردانتے ہوئے ان کی سخت مذمت کی ہے۔

یاد رہے کہ ایک روز قبل سرکاری افواج کے محاصرے کا شکار حمص شہر کے نواحی علاقے میں ایک نشانہ باز نے ایک معروف ویڈیو بلاگر رمی اسید کو بھی گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

دریں اثنا، برطانیہ میں قائم تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے کہا ہے کہ شام کے شمال مغربی صوبے اِدلب کے ایک گاؤں 'افس' پر شامی افواج کے ہیلی کاپٹروں نے مشین گنوں سے فائرنگ کی ہے۔

اِدلب شامی افواج سے بغاوت کرکے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مسلح جدجہد کا راستہ اختیار کرنے والے سابق فوجیوں کی تنظیم 'فری سیرین آرمی' کا اہم مرکز تصور کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق اور حزبِ اختلاف کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ شامی افواج کی بمباری اور دیگر پرتشدد کاروائیوں کے نتیجے میں منگل کو بھی اِدلب اور حمص میں کم از کم 63 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ہلاکتوں کے ان اعدادو شمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔

امریکی شہری میری کالوین جو کہ برطانوی اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ کے لیے کام کرتی تھیں اور ایک فرانسیسی فوٹو گرافر ریمی اوکلک بدھ کو ہونے والی بمباری میں ہلاک ہوئے۔

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ 13 مزید افراد ہلاک جب کہ کئی صحافی زخمی بھی ہوئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG