رسائی کے لنکس

بن لادن کی ہلاکت سے افغان مشن پر پڑنے والے اثرات


سینیٹر جان کیری اور سینیٹر رچرڈ لوگر (فائل فوٹو)
سینیٹر جان کیری اور سینیٹر رچرڈ لوگر (فائل فوٹو)

امریکی سینیٹ نے پاکستان میں اس کامیاب آپریشن پر جس میں القاعدہ کا لیڈر اسامہ بن لادن ہلاک ہو گیا، متفقہ طور پر امریکی فورسز کی تحسین و تعریف کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ یہ ہلاکت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اوبامہ انتظامیہ افغانستان سے بتدریج فوجیں نکالنے اور بالآخر امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کو ختم کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ منگل کے روز سینیٹ کی ایک سماعت میں افغانستان میں امریکہ کے مشن پر بن لادن کی ہلاکت سے پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر حملے کا بنیادی مقصد اسامہ بن لادن اور دوسرے دہشت گردوں کو پکڑنا یا ہلاک کرنا تھا۔ گیارہ ستمبر، 2001 کے دہشت گردوں کے حملوں کے چند روز بعد اس وقت کےصدر جارج ڈبلو بش نے عہد کیا تھا کہ امریکہ بن لادن کو ڈھونڈ نکالے گا ۔ انھوں نے کہا تھا کہ میں انصاف چاہتا ہوں۔ جیسا کہ امریکہ کے مغرب میں، میں نے ایک پرانے پوسٹر پر لکھا دیکھا ہے، مجرم مطلوب ہے، مردہ یا زندہ۔

تقریباً ایک عشرے بعد، صدر بش کی خواہش حقیقت بن گئی ہے۔ لیکن افغانستان میں جنگ برسوں سے جاری ہے۔ طالبان کا تختہ الٹے جانے اور القاعدہ کے اپنی کارروائیوں کے لیے یمن جیسے نئے ملک تلاش کرنے کے بعد بھی۔

سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیئر مین، ریاست میسا چوسٹس کے سینیٹر جان کیری نے منگل کے روز کہا کہ بن لادن کی ہلاکت سے واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ کو افغانستان کے بارے میں کچھ اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔

’’بن لادن کی موت کے بعد، یقیناً کچھ لوگ کہیں گے کہ ہم افغانستان سے بوریا بستر باندھ کر چلے کیوں نہیں جاتے۔ پس یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ ہم بہت احتیاط سے غور کریں کہ ہمارے لیے اصل سیکورٹی چیلنج کیا ہے ۔‘‘

کمیٹی کے اعلیٰ ریپبلیکن رکن سینیٹر رچرڈ لوگر نے افغانستان کی جنگ کے اخراجات کی طرف توجہ دلائی جو اب سو ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں۔ انھوں نے اس بارے میں شبہے کا اظہار کیا کہ افغانستان دہشت گردوں کے اثرات سے آزاد ہو کر محفوظ اور مستحکم جمہوریت بن سکتا ہے۔ انھوں نے کہا’’صدر اوباما کو صاف طور سے بتانا چاہیئے کہ امریکہ کے اہم مفادات اور سنجیدگی سے اس تجزیے کی بنیاد پر کہ افغانستا ن میں کیا حاصل کرنا ممکن ہے، ان کی نظر میں افغانستان میں کامیابی کا کیا مطلب ہے۔ جب افغانستان سے امریکی فوجیں رخصت ہوں گی تو کچھ خامیاں باقی رہیں گی۔ لیکن صدر نے یہ نہیں بتایا ہے کہ وہ کون سی خامیاں ہیں جو نا قابلِ برداشت ہوں گی۔‘‘

اس سماعت میں کونسل آن فارن ریلیشنز کے صدر رچرڈ ہاس نے بھی گواہی دی۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کی طالبان کا زور توڑنے اور اس کے ساتھ ہی افغان سیکورٹی فورسز کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے وہ نتائج بر آمدہونے کا امکان نہیں ہے جس کی اوباما انتظامیہ نے آس باندھ رکھی ہے۔

انھوں نے کہا’’مجھے شدید شبہ ہے کہ افغانستان کے حالات میں یہ پالیسی کامیاب ہوگی، خاص طور سے یہ دیکھتے ہوئے کہ افغانستان کے مرکزی ادارے کمزور ہیں، اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ پاکستان طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتا رہے گا۔‘‘

ہاس نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی کارروائیاں بہت کم کر دینی چاہئیں۔ اس کی توجہ انسداد ِ دہشت گردی کے محدود مشن پر ہونی چاہیئے ، ملک کی اقتصادی تعمیر پر نہیں۔

بن لادن کی ہلاکت سے افغان مشن پر پڑنے والے اثرات
بن لادن کی ہلاکت سے افغان مشن پر پڑنے والے اثرات

لیکن امریکی محکمۂ خارجہ کی سابق عہدے دار این ماری سلاٹر نے سینیٹرز کو انتباہ کیا کہ افغانستان میں امریکہ کی کارروائیوں میں کمی کرنے کا تجربہ کیا جا چکا ہے اور اس کے تباہ کن نتائج بر آمد ہوئے تھے اور صدر اوباما کو وہاں امریکی فوج کی تعداد میں عارضی طور پر اضافہ کرنا پڑا تھا۔ انھوں نےکہا’’ہم نے طالبان کو بہت تیزی سے نکال باہر کیا اور پھر ہم نے انسداد ِ دہشت گردی کی محدود سی حکمت عملی اختیار کر لی۔ تین یا چار سال بعد، طالبان نے خوب زور پکڑ لیا۔‘‘

سلاٹر نے کہا کہ طالبان کو ان کے ٹھکانوں سے باہر نکالنے اور افغان حکومت کو مضبوط بنانے سے مذاکرات کے ذریعے جنگ کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ اگر افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو جس میں طالبان کے ایسے عناصر شامل ہوں جو القاعدہ کی میزبانی نہ کرتے ہوں، تو یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

بعض سینیٹرز نے ایک ایسی جنگ کے بارے میں جس کے بارے میں کسی کو یہ خیال نہیں تھا کہ یہ اتنے عرصے تک جاری رہے گی، بے زاری اور برہمی کا اظہار کیا۔ الی نوائے کے ڈیموکریٹک سینیٹر رچرڈ ڈربن نے کہا’’میں نے افغانستان پر حملے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ میں نے القاعدہ کا تعاقب کرنے اور اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے اور اگر ضروری ہو تو اسے ہلاک کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اب دس برس گذر چکے ہیں۔ اگر آپ نے مجھ سے پوچھا ہوتا کہ میں امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے لیے دستخط کر رہا ہوں، جس کا اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بھی کوئی خاتمہ ہوتا نظر نہیں آتا، تو میں یہی کہوں گا کہ میں نے اپنے خیال میں اس کے لیے ووٹ نہیں دیا تھا۔‘‘

اوباما انتظامیہ نے امریکی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی موت کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ اس دہشت گرد لیڈر کی موت سے 2014 میں افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کی مقررہ تاریخ میں کوئی تبدیلی آئے گی۔

XS
SM
MD
LG