رسائی کے لنکس

برمی حکومت اصلاحات کے لیے عملی اقدامات کرے، امریکی ایلچی


خصوصی ایلچی آنگ سان سوچی کے ہمراہ
خصوصی ایلچی آنگ سان سوچی کے ہمراہ

برما کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ڈیرک مچل نے کہا ہے کہ برمی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں اصلاحات کے نفاذ پر یکسو ہیں تاہم انہوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کا ثبوت عملی اقدامات سے پیش کرے۔

برما کےپانچ روزہ دورے کے اختتام پر بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خصوصی امریکی سفارت کار کا کہناتھا کہ انہیں برمی حکام کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کے کھلے پن اور حکام کی تعمیری سوچ سے حوصلہ ملا ہے۔

امریکی ایلچی نے بتایا کہ ملاقاتوں کے دوران برمی حکام کا اصرار تھا کہ ملک میں سول حکومت کے اقتدار میں آنے سے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے جو اصلاحات کے نفاذ کے لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ یکسو ہے۔

تاہم مچلز کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو برمی جیلوں میں موجود سیاسی قیدیوں اور برمی حکومت کے ملک کی نسلی اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ پر تشویش ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ برمی حکام سے اپنی ملاقاتوں کے دوران انہوں نے جیلوں میں قید دو ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں اور نسلی اقلیتوں کے علاقوں میں خواتین اور بچوں سمیت دیگر افراد کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔

امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ انہوں نے برما کی حکومت پر واضح کردیا ہے کہ اسے ملک میں اصلاحات کے حوالے سے اپنی سنجیدگی کے اظہار کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان کے بقول قومی مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام سیاسی قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کرے اور آنگ سان سوچی سمیت تمام سیاسی مخالفین کے ساتھ بامقصد مذاکرات شروع کیے جائیں۔

گزشتہ ماہ امریکی سینیٹ کی جانب سے اپنی تقرری کی توثیق کے بعد ڈیرک مچل کا برما کا یہ پہلا دورہ تھا جس کے دوران انہوں نے دارالحکومت میں اعلیٰ حکومتی عہدیداران سے ملاقاتوں کے علاوہ رنگون میں برما کی عالمی شہرتِ یافتہ جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی اور حزبِ مخالف کے دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں۔

واضح رہے کہ برما کی موجودہ حکومت نے ملک پر طویل عرصہ سے برسرِ اقتدار فوجی انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات کے بعد رواں برس مارچ میں اقتدار سنبھالا ہے۔

اقتدار میں آنے کے بعد سے نئی انتظامیہ نے عالمی برادری کے کئی اہم مطالبات تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف آنگ سان سوچی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے ہیں بلکہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی مبصرین کو بھی ملک میں داخلے کی اجازت دی ہے۔ نو منتخب حکومت نے ملک کے شمالی حصے میں برسرِ پیکار نسلی باغیوں کے ساتھ بھی مذاکرات کا آغاز کیا ہے جو اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔

تاہم نئی حکومت کے عہدیداران کی اکثریت سابق فوجی افسران پر مشتمل ہے جس نے حکومت کی تحویل میں موجود دو ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں کے مستقبل کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیاہے۔

XS
SM
MD
LG