رسائی کے لنکس

وہ تاریخ ساز ہیں، لیکن کیا کلنٹن ووٹروں کا اعتماد جیت سکیں گی؟


وہ تاریخ ساز تو بن چکی ہیں۔ داخلی اور خارجہ امور کا تجربہ بھی رکھتی ہیں۔ اور اُنھیں پرائمری انتخابی سطح کے اپنے مدِمقابل کی حمایت حاصل ہے۔

اب، کیا ہیلری کلنٹن اس بات پر تیار ہیں کہ وہ تاریخ کی انتہائی منفی درجہ بندی کے معاملے پر حاوی پاجائیں گی، جو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کے طور پر اُنھیں لاحق ہیں؟

کنوینشن سے قبل گذشتہ ہفتے ’گیلپ پول‘ کی جانب سے تیار کردہ عام جائزے کے مطابق، محض 38 فی صد امریکی کلنٹن کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جو اُن کے 24 برس کے قومی سفرِ حیات کی نچلی ترین سطح ہے۔

اور ’واشنگٹن پوسٹ/اے بی سی نیوز‘ کے تازہ ترین عام جائزے کے مطابق، سروے میں شامل 54 فی صد شرکا کا کہنا ہے کہ وہ کلنٹن کو غیرمقبول خیال کرتے ہیں، جب کہ صرف 39 فی صد اُنھیں ایماندار اور قابلِ بھروسہ سمجھتے ہیں۔

اِس تاثر کی ایک وجہ اُن کی جانب سے نجی اِی میل سرور کے استعمال سے متعلق جاری تنازعہ ہوسکتا ہے، جب وہ 2009ء سے 2013ء کے دوران وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھیں۔

امریکی یونیورسٹی کے تاریخ دان، الن لِچمن کے بقول، ’’کلنٹن کے لیے اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ اعتماد کی کمی پر کس طرح حاوی پائیں گی‘‘۔ اُنھوں نے ’واشنگٹن پوسٹ/اے بی سی پول‘ کا حوالہ دیا جس میں ’’56 فی صد امریکیوں کے خیال میں اپنے ذاتی اِی میل سرور کے سلسلے میں مسائل پر اُنھیں فرد جرم عائد ہوسکتا ہے۔ یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے‘‘۔

اعتماد کا معاملہ دونوں ہی اہم جماعتوں کے امیدواروں کو لاحق ہے۔

اِس ضمن میں، مئی میں ’نیو یارک ٹائمز/سی بی ایس نیوز‘ کی عام جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ رجسٹرڈ امریکی ووٹروں کا تقریباً دو تہائی ٹرمپ اور کلنٹن کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنے اپنے امیدوار کو ’’ایماندار اور قابل اعتماد‘‘ گردانتے ہیں، تو 64 فی صد افراد کا جواب ’’نہیں‘‘ تھا۔

اس ہفتے کے واشنگٹن پوسٹ کے ’وونک بلاگ ‘ میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ دونوں نامزد امیدواروں کو عدم بھروسہ کی بڑی سطح سے سابقہ ہے، جب کہ دھوکہ دہی کی نوعیت میں فرق ہے۔

سروے میں کہا گیا ہے کہ اسکینڈل اور الزامات کو دیکھتے ہوئے، کلنٹن کی مبالغہ آرائی اور غلطیاں ’’قابلِ دفاع لگتی ہیں‘‘۔ ٹرمپ کے معاملے میں ’’یہ زیادہ تکلیف دہ اور اپنے آپ کو زیادہ ترجیح دینے کے زمرے میں آتی ہیں‘‘، جیسا کہ بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی کاروباری کامیابیاں یا پھر سیاسی مخالفین اور اقلیتی گروپوں کے خلاف الزامات‘‘۔ حقائق کا جائزہ لینے والے ادارے ’پالیٹی فیکٹ‘ نے ٹرمپ کے 203 اور کلنٹن کے 226 بیانات کا جائزہ لیا ہے۔ ’وانک بلاگ‘ کے مطابق، کلنٹن کے معاملے میں ایک تہائی سے کم باتوں کو زیادہ تر غلط یا بدتر پایا گیا۔ اِسی پیمانے پر، اُس نے ٹرمپ کی 71 فی صد باتیں غلط یا بدتر قرار دی ہیں‘‘۔

کلنٹن کے معاملے میں صرف متنازع اِی میل ہی نہیں ہیں، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اُنھیں اس تاثر کا توڑ نکالنا ہوگا کہ وہ کسی کا خیال نہیں کرتیں یا یہ کہ عام امریکی کو متاثر کرنے والے معاملات کا ادراک ہی نہیں رکھتیں۔

XS
SM
MD
LG