رسائی کے لنکس

بشار الاسد کے ماسکو میں ’خصوصی استقبال‘ پر امریکہ کی تنقید


شام اور روس کے صدر کی ملاقات
شام اور روس کے صدر کی ملاقات

وائٹ ہاؤس کے ترجمان ایرک شلٹز نے کہا کہ یہ طرز عمل روس کے بیان کردہ اس مقصد سے مختلف ہے کہ وہ شام میں سیاسی تبدیلی کی حمایت کرتا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے ماسکو کی طرف سے شامی صدر بشارالاسد کے ماسکو میں "خصوصی استقبال" پر روس پر تنقید کی ہے۔

ترجمان ایرک شلٹز نے بدھ کو کہا کہ یہ طرز عمل روس کے بیان کردہ اس مقصد سے مختلف ہے کہ وہ شام میں سیاسی تبدیلی کی حمایت کرتا ہے۔

"اسد کا خصوصی استقبال، جس نے اپنی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے، وہ روس کے بیان کردہ اس مقصد سے مختلف ہے کہ (وہ) شام میں سیاسی تبدیلی کی حمایت کر رہا ہے"۔

امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ بشار الاسد کے ماسکو دورے پر حیران نہیں ہیں اگرچہ کریملن نے اسے صیغہ راز میں رکھا تھا۔

اسد بدھ کو اس دورے کے بعد وطن واپس پہنچے جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ 2011ء میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد ان کا پہلا بیرون ملک دورہ ہے۔ اس لڑائی کے دوران اب تک کم از کم دو لاکھ چالیس ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔

بشارلاسد نے کریملن میں صدر ولادیمر پوتن سے مزاکرات کیے۔ انہوں نے (شام کی جنگ میں ) روسی شرکت پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس نے شام میں مزید" دہشت گردی" کے پھیلاؤ کو روک دیا ہے۔ شامی رہنما "دہشت گردوں" کی اصطلاح شامی باغیوں کے بارے میں استعال کرتے ہیں۔

روس شام کی جنگ میں تین ہفتے قبل شامل ہوا اور جس کا مقصد اس کے بقول یہ داعش کو تباہ کرنا ہے۔ تاہم امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ داعش کی بجائے روسی فضائی کارروائیوں میں دوسرے باغی گروپوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور حقیقت میں ان کا مقصد اسد کی حکومت کو مضبوط کرنا ہے۔

ریپبلکن سینٹر سوزن کولنز نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شام روس کے "زیر اثر ریاست" ہے اور اسد کا خیال ہے کہ وہ پوتن کی مدد کے بغیر (اقتدار میں) نہیں رہ سکتے ہیں۔

دوسری طرف روس کی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وزیر خارجہ سرگئی لاوروف امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے جمعہ کو ویانا میں ملاقات کریں گے جس میں شام کی صورت حال کے بارے میں بات ہو گی۔ اس بات چیت میں سعودی عرب اور ترکی کے وزیر خارجہ بھی شرکت کریں گے۔

XS
SM
MD
LG