رسائی کے لنکس

موٹاپے کا شکار ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ’مایوسی‘ کی خبر


ورزش میں مصروف خواتین
ورزش میں مصروف خواتین

ایک نئی رپورٹ کے مطابق مریض کو پرہیز اور ورزش سے وزن کم کرنے کے فوائد محسوس ہوتے ہیں، مگر اس سے امراض قلب کے خطرات کم نہیں ہوتے۔

بین الاقوامی طبی ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ پرہیزی غذا اور ورزش کے ایک مشترکہ منصوبے کے ذریعے وزن کم کرنے کے باوجود ذیابیطس ’ٹائپ ٹو‘ کے مریضوں میں امراض قلب بشمول دل کا دورہ پڑنے اوراسٹروک کے خطرات کم نہیں ہوتے۔

یہ انکشاف امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین نے مشترکہ طور پر تیارکردہ ایک طویل اور مہنگی تجزیاتی رپورٹ میں کیا ہے، جس کے نتائج کا اعلان جعمہ کو کیا گیا۔

ماہرین نے کہا ہے کہ موٹاپے کا شکار ’ٹائپ ٹو‘ ذیابیطس کے مریض وزن میں قدرے کمی سے نیند اور حرکت میں بہتری سمیت کئی دیگر فوائد محسوس کرتے ہیں، لیکن امراض قلب کے امکانات کم کرنے پرجسم میں ہونے والی اس تبدیلی کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ذیابیطس میں متبلا زیادہ تر افراد کی موت کی وجہ دل کے امراض ہوتے ہیں۔ امریکہ میں اس وقت لگ بھگ دو کروڑ چالیس لاکھ افراد ’ٹائپ ٹو‘ ذیابیطس کا شکار ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کے تعاون سے کی گئی تحقیق سے منسلک ماہرین کے بقول اُن کا خیال تھا کہ وزن کم کرنے کے منصوبے سے دل کی بیماریوں کے خطرات کم ہوتے ہیں، مگر نئی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔

یہ تحقیق’لُک آہیڈ‘ ( Look AHEAD (Action for Health in Diabetes) trial ) نامی تنظیم کی نگرانی میں کی گئی۔

ادارے کی سربراہ ڈاکٹر ینا ونگ نے کہا کہ رپورٹ نے ثابت کیا ہے کہ ایسے افراد جو موٹاپے کا شکار اور’ٹائپ ٹو‘ میں مبتلا ہیں ایک مخصوص طرز زندگی اپنا کر وزن کم کرسکتے ہیں۔

’’اگرچہ تحقیق نے ٹائپ ٹو کے مریضوں کے وزن میں کمی کے صحت پر کئی مثبت فوائد کی نشاندہی کی ہے، مگر اس سے امراض قلب کے امکانات میں کمی نہیں ہوئی۔‘‘

ان طبی محقیقین کا کہنا ہےکہ رپورٹ کے نتائج اکثر ڈاکٹروں اور مریضوں کے لیے حیران کن ہوں گے، لیکن امکان ہے کہ وہ اپنے مشورے دینے اور لینے میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے کیونکہ ’ٹائپ ٹو‘ ذیابیطس میں مبتلا افراد کے لیے وزن کم کرنا بھی ضروری ہے۔

’’پرہیزی غذا اور ورزش کے ایک سخت گیر منصوبے کے ذریعے وزن کم کرنے والے مریضوں کے لیے (یہ نتائج) بہت مایوس کُن ہیں کیونکہ ان تبدیلیوں کے لیے اُنھوں نے بہت محنت کی ہوگی۔ ‘‘

امریکی و برطانوی ماہرین نے اس تحقیق کا آغاز2001ء میں کیا تھا اور ابھی مزید دو سال کا کام باقی تھا۔

لیکن ایک غیر جانبدار نگران بورڈ نے ستمبر کے وسط میں این آئی ایچ کو موجودہ سطح پرہی اسے روکنے کا مشورہ دیا کیونکہ موٹاپا کم کرنے کے خصوصی پروگراموں میں شرکت کرنے والوں پر پرہیزی غذا اور ورزش کے اثرات کے بارے تحقیق کے نتائج زیادہ اُمید افزا نہیں تھے۔

گزشتہ گیارہ سال سے جاری اس تحقیق پر سالانہ تقریباََ دو کروڑ یا پھر مجموعی طور پر22 کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے۔

اس کام میں 16 میڈیکل سینٹرز پر سینکڑوں ڈاکٹروں، نرسوں، غذائی ماہرین اور ورزش کرانے کے ماہرین نے حصہ لیا، جنہوں نے اوسطاً 58 سال کی عمر کے پانچ ہزار سے زائد ’ٹائپ ٹو‘ میں مبتلا ذیابیطس کے مریضوں کا مشاہدہ کیا۔ ان میں 60 فیصد خواتین تھیں۔

’ٹائپ ٹو‘ ذیابیطس کی بیماری بلوغت کی عمر میں ہوتی ہے اور اس کا تعلق موٹاپے سے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ’ٹائپ ون‘ ذیابیطس زمانہ طفلی میں ہوتا ہے اور اس میں مبتلا افراد عمومی طور پر دُبلے پتلے ہوتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG