رسائی کے لنکس

یرغمالیوں کی موت امریکہ کی ڈرون پالیسی پر سوالیہ نشان


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ناقص انٹیلی جنس اور ناقص عملدآمد کے علاوہ ڈرون پالیسی کے بارے یہ میں سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کو یرغمالیوں کی موت کی اطلاع عام کرنے میں تین ماہ کیوں لگے۔

ماہرین اور سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ ایک امریکی اور ایک اطالوی امدادی کارکن کی امریکی ڈرون حملے میں نادانستہ ہلاکت سے ڈرون حملوں پر تنقید بڑھنے کا امکان ہے۔ ڈرون حملے امریکی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا اہم ستون ہیں۔

ڈرون کہلانے والے بغیر پائلٹ کے ان طیاروں کو اپنے ہدف سے بہت دور بیٹھے امریکی فوجی اور سی آئی اے کے اہلکار چلاتے ہیں۔ ڈرون کو امریکی زندگیوں کو بلاضرورت خطرے میں ڈالے بغیر دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں بہت مؤثر سمجھا جاتا ہے۔

ناقدین کے خیال میں ڈرون نے جنگ کو ایک وڈیو گیم میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہری اموات کو کم سے کم کرنے اور جائز اور قانونی اہداف کو شناخت کرنے کے عمل کو رازداری میں رکھا جاتا ہے، خصوصاً وہ اہداف جن میں امریکی شہری بھی شامل ہوں۔

ہیومن راٹس واچ کی ایک سینئر تحقیق کار لیٹا ٹیلر نے کہا ہے کہ ’’جہاں امریکہ کے پاس بہت کم زمینی انٹیلی جنس ہو ان علاقوں میں جائز اہداف کی شناخت کے لیے امریکہ کو معلومات کے جس خلا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، یہ واقعہ اس کی ایک اور مثال ہے۔‘‘ لیٹا ٹیلر نے یمن میں ڈرون میں ہونے والے جانی نقصان پر تحقیق کی ہے۔

سکائپ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’’اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ڈرون اتنے ہی جادوئی ہتھیار ہیں جتنا کہ اتنظامیہ ہمیں بتا رہی ہے، تو میں کہوں گی کہ وہ اتنے ہی مؤثر ہوں گے جتنی صحیح ہدف کی شناخت کے لیے استعمال ہونے والی انٹیلی جنس ہو گی۔‘‘

امریکی عہدیداروں کے مطابق جنوری میں ہونے والے دو ڈرون حملوں کا ہدف القاعدہ کے ارکان تھے۔ مگر جو شدت پسند جنوری 14 اور جنوری 19 کو ہونے والے حملوں میں مارے گئے وہ نادانستہ طور پر مارے گئے تھے۔ احمد فاروق اور ایڈم گدان نامی یہ دونوں افراد امریکی شہری تھے۔

جنوری 14 کے حملے میں امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس اے آئی ڈی) کے لیے کام کرنے والے امریکی شہری وارن وائن سٹائن بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ وائن سٹائن کو پاکستان میں سات سال پورے ہونے سے چار دن قبل 2011 میں یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ جیووانی لو پورٹو نامی اطالوی شہری کو پاکستان میں امدادی کام کے لیے آنے کے فوراً بعد ہی اغوا کر لیا گیا تھا۔

اوباما کی جانب سے اظہار پشیمانی

ٹیلی ویژن پر نشر کیے جانے والے ایک بیان میں صدر اوباما نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی امریکی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر وہ کافی پشیمان تھے۔ انہوں نے ’ڈرون‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’یہ ایک تلخ اور بے رحم حقیقت ہے جنگ کے غبار میں، خصوصاً دہشتگردوں کے خلاف ہماری جنگ میں، غلطیاں ہوسکتی ہیں، اور کبھی کبھار مہلک غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔‘‘

"وائن سٹائن اور لو پورٹو کے اہلِ خانہ پر جو گزر رہی ہے ایک باپ اور شوہر ہونے کی حیثیت سے وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں جو بھی کہوں مگر ان کو پہنچنے والے دکھ کو کم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ناقص انٹیلی جنس اور ناقص عملدآمد کے علاوہ ڈرون پالیسی کے بارے میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ وائٹ ہاؤس کو یرغمالیوں کی موت کی اطلاع عام کرنے میں تین ماہ کیوں لگے۔

امریکی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے نام راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ حکام ان دو حملوں میں اپنے اہداف کے بارے میں ’’تقریباً واضح‘‘ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے بہت زیادہ یقین کے ساتھ یہ اندازہ لگایا تھا کہ ان احاطوں میں القاعدہ کے اراکین رہتے تھے۔‘‘

انہوں نے کہا 19 جنوری کے حملے کے دو دن بعد حکام نے حملوں کے مقام پر غیر جنگجو افراد کی موجودگی کے امکان پر تفتیش شروع کی۔ حکومت کو اپریل سے قبل اس بات کا ’’بہت زیادہ یقین‘‘ نہیں ہوا تھا کہ ان حملوں میں امریکی بھی مارے گئے ہیں۔

اوباما انتظامیہ پر انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکنوں کی طرف سے دباؤ ہے کہ وہ زیادہ وضاحت سے بتائے کہ اہداف کے انتخاب کا فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے۔ ان حملوں کے سخت مخالفین یہ کہتے ہیں کہ یہ حملے قتل کا دوسرا نام ہیں۔ اگر امریکی شہری بھی حملوں کا نشانہ ہوں یا ان میں ہلاک ہوں تو تنقید میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر امریکی شہریوں کو نشانہ بنایا جائے، جیسا کہ 2011 میں القاعدہ کے رکن انور العولقی کو یمن میں بنایا گیا تھا‎ تو اس کے لیے خصوصی منظوری حاصل کرنا لازمی ہے۔

دو سال قبل اپنی ایک اہم تقریر میں صدر اوباما نے دنیا بھر میں ڈرون حملے کرنے کے لیے مخصوص شرائط بیان کی تھیں۔

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں انہوں نے 23 مئی 2013 کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کوئی بھی ڈرون حملہ کرنے سے پہلے اس بات کا تقریباً یقین ہونا لازمی ہے کہ اس میں کوئی شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہو گا۔‘‘

مگر بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ انتظامیہ کی رازداری کی پالیسی نقصان دہ ہے، جس سے شک اور بداعتمادی اور احتساب میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG