رسائی کے لنکس

تجارتی خسارے میں اضافے سے عالمی معیشت پر پڑنے والے ممکنہ اثرات


عالمی اقتصادی انحطاط کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایشیا کے ساتھ امریکہ کے تجارتی خسارے پر توجہ مرکوز ہوئی ہے ۔ ابتدا میں اقتصادی بحران کی وجہ سے تجارتی عدم توازن میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن اب تجارتی خسارے میں پھر اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی معیشت پر اس کے اثرات کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے ۔

اپریل کے آخر میں امریکہ کے محکمۂ تجارت نے کہا کہ 2010 کے پہلے تین مہینوں میں امریکی معیشت میں ترقی کی رفتار اندازاً تین اعشاریہ دو فیصد رہی۔صارفین کے طرف سے پیسے کے خرچ اور کاروباری سرمایہ کاری دونوں میں اضافہ ہوا ۔ لیکن اس اضافے کا بیشتر حصہ امریکی درآمدات پر مشتمل تھا۔ درآمدات میں سالانہ اضافہ تقریباً نو فیصد تھا جب کہ بر آمدات میں اضافے کے شرح پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد رہی۔

حال ہی میں واشنگٹن میں نیشنل بیورو آف ایشین ریسرچ کے ایک فورم میں اقتصادی بحران اور امریکہ پر اس کے اثرات پر بحث ہوئی ۔کارنیج اینڈومنٹ کے سینیئر ایسو سی ایٹ ایشلی ٹیلِس کہتے ہیں’’سرمایہ داری نظام میں لچک کی بے حد گنجائش ہے ۔ ہم نے اب تک یہ دیکھا ہے کہ اس کو جس طرح منظم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس میں بڑی کمزوریاں ہیں۔ لیکن اس نظام کی خوبی یہ ہے کہ اسے مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاسکتا ہے اور مارکیٹ کی طرف سے ملنے والے اشاروں کی روشنی میں اس میں ردو بدل ہوتا رہتا ہے۔‘‘

ٹیلِس کہتے ہیں کہ اقتصادی بحران کی وجہ سے حکومت کی طرف سے قواعد و ضوابط میں اضافہ ہوتا رہے گا لیکن سرمایہ داری نظام بر قرار رہے گا۔ امکان یہی ہے کہ سرکاری ریگولیشن میں اضافہ ہو گا لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ یہ رجحان مستقل نوعیت کا ہوگا۔ جیسا کہ گذشتہ30 برسوں میں ہوتا رہا ہے، سرکاری ضابطوں میں بتدریج کمی آ جائے گی۔

ایشیا میں امریکہ کی تجارت میں جاپان کا رول بہت نمایاں ہے۔ ویلیم گرمزبوسٹن یونیورسٹی میں صنعتی تعلقات کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب امریکہ کے مالیاتی اداروں اور منڈیوں میں اقتصادی انحطاط آیا تو جاپان اس سے مختلف انداز سے متاثر ہوا۔’’کسی بھی صنعتی ملک کی معیشت پر عالمی اقتصادی بحران کا اثر اتنا زیادہ نہیں ہو ا جتنا جاپان پر ہوا۔ یہ بات اس لیے بھی عجیب ہے کیوں کہ جاپان کے مالیاتی اداروں کے پاس جو اثاثے تھے ان کی مالی حیثیت بہت مضبوط اور ٹھوس تھی۔‘‘

2009 کے شروع میں جاپان کی بر آمدات کم ہو کر آدھی رہ گئیں اور موٹر کاروں کی پیداوار میں جو عام طور سے کم نہیں ہوتی، پچاس فیصد کی کمی آئی۔ جاپان کی حکومت نے معیشت کی بحالی کے اقدامات کیے اور اقتصادی سرگرمیوں میں جان ڈالنے کے لیے 150 ارب ڈالر کا پیکیج فراہم کیا۔ اس کے علاوہ، اس نے G-20 گروپ کے ملکوں پر بھی زور ڈالا کہ وہ عالمی سطح پر اقدامات کریں۔

گرمز کہتے ہیں کہ اقتصادی انحطاط کی وجہ سے امریکہ اور جاپان کے تجارتی تعلقات میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ دونوں ملکوں میں کوئی بھی پارٹی بر سرِ اقتدار ہو، جاپان اور امریکہ کے درمیان قومی سلامتی، آزاد تجارت اور مالیاتی لین دین، اور اہم خام اشیاء تک رسائی کے بنیادی اصولوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

ایشلی ٹیلِس کہتے ہیں کہ مختصر مدت میں امریکی معیشت کا غلبہ برقرار رہے گا۔ لیکن سات اور 15 برس کی درمیانی مدت میں، جیسے جیسے ایشیا کی معیشتیں مضبو ہوتی جائیں گی، امریکہ کو بعض سوالات کے جواب دینا ہوں گے۔ وہ سوال یہ ہیں کہ اقتصادی بحالی کے جو اقدامات ہم نے کیے ہیں اور گذشتہ تین برسوں کے دوران جو کچھ کیا ہے، کیا ہم اس کی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔

ٹیلِس مزید کہتے ہیں کہ طویل المدت حل کے لیے ضروری ہو گا کہ ڈالر کی قدر میں بتدریج کمی لائی جائے اور تجارتی عدم توازن کو کم کرنے کے لیے اشیاء کے صرف میں کمی کی جائے۔’’گذشتہ 20 سے30 برسوں کے دوران ہم نے ایک مخصوص راستہ اختیار کر لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عالمی معیشت، امریکہ میں اشیاء اور خدمات کے صرف کے سہارے چل رہی ہے ۔ لیکن ہم ان چیزوں پر جو کچھ خرچ کر رہے ہیں وہ دوسرے ملکوں کے سرمایے کی شکل میں ہمارے ملک میں آ رہا ہے۔ یہ وہ ملک ہیں جن میں بچت کی شرح امریکہ کی بچت کی شرح سے کہیں زیادہ ہے ۔‘‘

امریکہ میں اشیاء کی تیاری میں جو انحطاط آیا ہے اس کی وجہ سے ہم غیر ملکی درآمدات پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ بہت سے اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ تجارت کو مستحکم کرنے کے لیے ہمیں ملک کے اندر اشیاء کی تیاری اور داخلی تجارت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ لیکن ایسا کرنا مشکل ہو گا کیوں کہ حالیہ اقتصادی انحطاط کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں بند ہو گئی ہیں اور غیرملکی اشیاء پر ہمارا انحصار بڑھ گیا ہے ۔

XS
SM
MD
LG