رسائی کے لنکس

امریکی صدارتی انتخابات کی پاکستانی میڈیا پر غیر معمولی کوریج


ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے بیشتر مباحثوں اور ’ٹاک شوز‘ میں مبصرین کی بحث کا مرکزی نکتہ ان انتخابات کے نتائج کا جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان پر ممکنہ اثرات رہا۔

پاکستانی میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز نے امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی غیر معمولی کوریج کی گئی۔

سرکاری اور نجی نشریاتی اداروں نے اپنی ویب سائٹس پر نہ صرف خصوصی مضامین اور فیچرز شائع کیے بلکہ براک اوباما اور مٹ رومنی کے درمیان انتخابی مقابلے پر تجزیاتی پروگرام اور امریکہ میں ہونے والی سرگرمیوں پر براہ راست نشریات بھی پیش کیں۔

ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے بیشتر مباحثوں اور ’ٹاک شوز‘ میں مبصرین کی بحث کا مرکزی نکتہ ان انتخابات کے نتائج کا جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان پر ممکنہ اثرات رہا۔

صدارتی انتخابات کی اس پیمانے پر تشہیر کی وجہ نجی ٹی وی چینلز کے حکام کے بقول امریکہ کا اس خطے میں عمل دخل اور پاکستان سے تعلقات ہیں۔

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس کے ڈائریکٹر حالات حاضرہ مظہرعباس کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ کے باوجود پاکستانی معیشت اور سیاست امریکی انتخابات سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔

انہوں کہا کہ یہ مفصل کوریج پاکستانی پالیسی سازوں کے لیے بھی خاصی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی جانب سے مختلف اقسام کے نکتہ نظر سامنے آتے ہیں۔

’’افغانستان میں آنے والی تبدیلیاں ہماری اندرونی سیاست کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس لیے پاکستان تجزیہ نگاروں نے اسے اہمیت سے دیکھا اور ان پر تبصرے بھی کیے گئے۔‘‘

لیکن نامور تجزیہ نگار پروفیسر رسول بخش رئیس کا ماننا ہے کہ پاکستانی میڈیا پر اس نمایاں کوریج کی وجہ عوام میں امریکی انتخابی عمل سے متعلق دلچسپی نہیں بلکہ یہ ٹی وی چینلز کی ضرورت ہے۔

’’ان (ٹی وی چینلز) کے پاس کچھ نہیں ہے سوائے سیاست کے جلوے دکھانے کے اور یہ بھی ایک سیاست کا جلوہ سمجھ لیں۔ نہ وہ ڈاکیومنٹری بنا سکتے ہیں۔ سیاست اور معاشرت کے سنجیدہ معاملات پر ان کا دھیان نہیں جاتا۔ ان کے ہاتھ کوئی واقعہ آ جائے پاکستان کے اندر یا باہر سے تو وہ وقت گزارتے ہیں۔ یہ بھی وقت گزارنے والی بات ہے۔‘‘

پرفیسر رئیس کا کہنا تھا کہ اس کوریج کے ذریعے امریکہ کے سیاست دانوں کے رویوں سے پاکستان میں متعلقین کو شاید یہ سوچنے کا موقع ملے کہ وہ کیسے موثر انداز میں اپنے ملک میں جمہوری رویوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔

’’جو سیاسی حریف ہوتے ہیں وہ دشمن نہیں ہوتے۔ وہ ساتھی ہوتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ دو مختلف پروگرام ہیں اقتصادی ترقی، معاشرتی سدھار کے، سلامتی کے امن کے، خارجہ پالیسی کے، قومی مفادات کے تحفظ کے تو عوام ان میں سے ایک کو چنتے ہیں اور جس کو نہیں بھی چنتے وہ بھی ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاست کرنے والوں کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔
XS
SM
MD
LG