رسائی کے لنکس

امریکی صدارتی انتخاب، مقابلہ سخت ہے


سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ 50 میں سے تقریباً 40 ریاستیں ایسی ہیں جن کا جھکاؤ کسی ایک امیدوار کی طرف ہوتا ہے ۔ اس طرح 10 کے لگ بھگ ریاستیں بچتی ہیں جو کسی کی بھی طرف جا سکتی ہیں۔

صدر براک اوباما اور ریپبلکن امید وار مٹ رومنی کے درمیان صدارتی انتخاب کے مقابلے میں منگل کو امریکی ووٹرز یہ فیصلہ کریں گے کہ آئندہ چار سال کے لیے امریکہ کا صدر کون ہو گا ۔

قومی جائزوں سے ظاہر ہوتا ہےکہ یہ بالکل برابر کا مقابلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری لمحوں میں دونوں امیدواروں نے ان چند ریاستوں کے کئی دورے کیے جن کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔ انتخاب میں شکست و فتح کا دارومدار ان ریاستوں کے نتائج پر ہوگا۔

صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے آخری دنوں میں کافی وقت وسط مغربی ریاست اوہایو میں صرف کیا۔ انھوں نے کہا’’یہ محض دو امیدواروں یا دو پارٹیوں میں سے کسی ایک کو چننے کا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ امریکہ کے بارے میں دو مختلف تصورات میں سے کسی ایک تصور کے انتخاب کا سوال ہے۔‘‘

ریپبلکن مٹ رومنی نے بالکل آخری وقت میں ریاست پینسلوینیا کا دورہ کیا۔ عام طور سے یہ ریاست ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتی ہے، لیکن حالیہ جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ دونوں پارٹیوں کی مقبولیت کے درمیان فرق کم ہو گیا ہے ۔ مٹ رومنی نے کہا’’اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ اچھی ملازمتیں اور اچھی تنخواہیں ماضی کی کہانیاں بن گئی ہیں، تو ان کے لیے میرے پاس واضح پیغام ہے۔ اگر قیادت صحیح ہو، تو امریکہ پھر زور شور سے پرانی ڈگر پر واپس آ جائے گا۔‘‘

دونوں امیدواروں کی کوشش ہے کہ ریاستوں کے الیکٹورل کالج کے ووٹوں میں انہیں اکثریت مل جائے۔ ہر ریاست کے لیے آبادی کی بنیاد پر الیکٹورل ووٹوں کی ایک تعداد مختص کردی جاتی ہے اور جس امیدوار کو کل 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 یا اس سے زیادہ ووٹ مل جاتے ہیں، اسے فاتح قرار دے دیا جاتا ہے۔

سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ 50 میں سے تقریباً 40 ریاستیں ایسی ہیں جن کا جھکاؤ کسی ایک امید وار کی طرف ہوتا ہے ۔ اس طرح 10 کے لگ بھگ ریاستیں بچتی ہیں جو کسی کی بھی طرف جا سکتی ہیں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں دونوں امیدوار وں کی انتخابی مہم پورے زور سے جاری ہیں۔

انتخابی مہم کے آخر میں جن ریاستوں کو سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہے ان میں اوہایو، ورجینیا، کولوراڈو، آیووا، نیو ہیمپشائر، اور وسکانسن شامل ہیں ۔

کہنہ مشق سیاسی مبصر ٹام ڈی فرینک کہتے ہیں کہ بہت سی ایسی ریاستوں میں جن کا جھکاؤ کسی کی بھی طرف ہو سکتا ہے، صدر کو بہت معمولی سی سبقت حاصل ہے۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کے ایک پروگرام میں کہا’’صدر اوباما کو ان battleground states میں جن کی تعداد سات ، آٹھ یا نو ہوسکتی ہے ، اتنی معمولی سی سبقت حاصل ہے ، کہ وہ دونوں میں سے کسی کو فتح سے ہمکنار کر سکتی ہیں۔‘‘

دونوں امیدواروں کے درمیان اس مقابلے میں فرق اس وقت سے کم ہونا شروع ہوا جب اکتوبر کے شروع میں پہلے مباحثے میں مسٹر رومنی نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کے مشرقی ساحل پر گذشتہ ہفتے کے سمندری طوفان سینڈی کے بعد صدر نے وفاقی حکومت کی امدادی کارروائیوں کو جس طرح منظم کیا، اور نشریاتی اداروں نے اسے جس طرح کور کیا، اس سے صدر کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔

اس کے علاوہ، وفاقی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والی بے روزگاری کی آخری رپورٹ کے مطابق، توقع سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملا ۔


صدر اوباما اور مٹ رومنی
صدر اوباما اور مٹ رومنی
یونیورسٹی آف ورجینیا کے سینٹر آف پولیٹکس کے ڈائریکٹر لیری سباتو کہتے ہیں’’جب کسی انتخاب میں کانٹے کا مقابلہ ہو، تو آپ ہمیشہ آخری ہفتے پر نظر ڈالتے ہیں جس سے امیدوار کو فاضل مدد مل سکتی ہے ۔ سمندری طوفان سینڈی اور روزگار کے مواقع کی جو رپورٹ آئی، ان سے صدر اوباما کو فاضل مدد ملی۔‘‘

لیکن بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ منگل کے انتخاب میں جیت کسی کی بھی ہو، ملک مستقبل قریب میں بٹا رہے گا۔

سیاسی تجزیہ کار ڈیوڈ جرجین نے سی بی ایس ٹیلیویژن کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں کہا’’میرے لیے ہمیشہ سوال یہ نہیں رہا کہ کون جیتے گا، بلکہ یہ رہا ہے کہ کیا جیتنے والا فرد ملک کا نظم و نسق چلا سکے گا؟ کیا جیتنے والا خسارے کو کم کرنے کے لیے اتفاقِ رائے سے کچھ کر سکے گا اور کیا وہ ملک کو ایک بار پھر ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے دوسری چیزیں کر سکے گا؟ میرے خیال میں جیتنے والے کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہوں گے ۔ ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہوں گے جو مختلف دھڑوں میں بٹا ہوا ہوگا اور ایسے حالات میں ملک کا انتظام چلانا بہت مشکل ہوگا۔‘‘

صدارتی انتخاب کے علاوہ، ایوانِ نمائندگان کی تمام 435 نشستوں ، نیز سینیٹ کی 100 میں سے 33 نشستوں پر انتخاب ہو گا۔

توقع ہے کہ ریپبلکنز ایوانِ نمائندگان میں اپنی اکثریت بر قرار رکھیں گے، اگرچہ ممکن ہے کہ ڈیموکریٹس کو چند مزید نشستیں مل جائیں۔

لیکن بیشتر تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ ریپبلکنز سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کو ریپبلکنز کی 47 نشتوں کے مقابلے میں 53 نشستیں حاصل ہیں۔
XS
SM
MD
LG