رسائی کے لنکس

امریکیوں کی آمدنی میں خاطرخواہ کمی


امریکیوں کی آمدنی میں خاطرخواہ کمی
امریکیوں کی آمدنی میں خاطرخواہ کمی

امریکی اخبارات سے: امیریکیوں کی آمدنی میں خاطرخواہ کمی
یوایس اے ٹوڈے اخبار نے امریکی مردم شماری کے دفتر کی ایک تازہ رپورٹ میں اس حیرت انگیز حقیقت کی طرف توجّہ دلائی ہے۔ کہ پچھلے دس سال کے دوران لوگو ں کی آمدنیوں میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ سب سے کم آمدنی والے طبقے میں یہ کمی سب سے زیادہ ہے۔ 2000 اور 2010 کے درمیانی عرصے میں یہ کمی 14 فی صد سے زیادہ تھی۔ متوسّط طبقے نے اس سے بھی زیادہ نقصان اٹھایا۔ آبادی کے چوٹی کے پانچ فی صد طبقے کی آمدنی میں بھی 5 اعشاریہ 8 فی صد کی کمی واقع ہوئی۔اس پانچ فی صد طبقے میں قلیل سی تعداد کی آمدنیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس اعتبار سےیہ کوئی تعجّب کی بات نہیں ۔ کہ اقتصادی بےاطمینانی کی وجہ سے دونوں دائیں ااور بائیں بازوں میں سیاسی بغاوت کو ہوا لگی۔

اخبار کہتا ہے کہ ان تکلیف دہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ واشنگٹن میں جو سیاسی بحث جاری ہے۔ وہ عوام کے بیشتر اقتصادی حقائق سے کس قدرلا تعلّق ہے ۔آمدنیوں میں کمی کا یہ رجحان براک اوباما انتظامیہ سے پہلے ہی سے موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان شاذ ہی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اخبار کا خیال ہے کہ ان ساے مسائل کا حل متّوازن بجٹ ہے۔ لیکن امریکی معیشت کا شیوہ بچت اورسرمایہ کاری سے زیادہ اشیائے صرف پر دولت لُٹانا ہے، جب کہ اس کا سیاسی نظام اندر کے با رسوخ عناصر کے مفاد کی رکھوالی کرتا ہے۔ اس کے ٹیکس کے ضابطے اِنہِیں عناصر کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ جب تک قوم الزام تراشی کا لا حاصل کھیل بند کر کے ان مسائل کو نمٹنے کی طرف توجّہ نہیں دیتی ۔اس وقت تک دونوں اونچا اور نچلا طبقہ تنزّل ہی کی توقّع کر سکتا ہے۔

امریکہ اس وقت بے روزگاری کے جس سنگین دور سے گذر رہا ہے اس پر واشنگٹن ٹائمز ایک اداریئے میں لکھتا ہے کہ ٹیکنکل اعتبار سے ملک میں سرد بازاری کا دور جون 2002 میں ختم ہو گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ابھی تک بے روزگاری کی شرح 9 فی صد سے زیادہ ہے۔اخبار کہتا ہے ملک وسیع پیمانے پر مشکلات کا شکار ہے۔ اور اس وقت ان امریکیوں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ ہے جن کا دو وقت کا کھانا سرکار کی طرف سے فراہم کردہ فوڈ سٹیمپس کی بدولت ممکن ہے۔ محکمہء زراعت کے بقول یہ تعداد ایک ریکارڈ ہے۔ اور ملک اس وقت جس سرد بازاری کا شکار ہے وہ 1930 کی سرد بازاری کے بعد سے بد ترین ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ لاکھوں ایسے امریکی جن کے پاس کبھی ہمہ وقتی روزگار تھا اب وہ اسٹوروں میں جُز وقتی کام کرنے یا ریستورانوں میں بیروں کا کام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جز وقتی کام کرنے والوں کا تناسب 18 فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ جو تشویشناک بات ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ سرکاری طور پر بے روزگاروں کی مجموعی تعداد ایک کروڈ چالیس لاکھ بتائی گئی ہے۔ اس میں وہ لوگ شامل نہیں کئے گئے ہیں جنہوں نے روزگار کی تلاش کرنا ہی چھوڑ دیا ہے اور جنہیں اس سرکاری فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہےٴ واشنگٹن ٹائمز کہتا ہے کہ ری پبلکنوں کے لیے حالات سازگار ہو گئے ہیں جن کی بدولت وہ اگلے سال کے انتخابات میں وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے دونوں ایوانوں پر قبضہ کر سکتے ہیں۔

کرسچن سائنس مانیٹر کہتا ہے کہ امریکہ اور یورپ پر اقتصادی بحران ، نئی معیشتوں کے بوجھ اور دنیائے عرب کے انقلابات نے نظام عالم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اندریں حالات آنے والے عشروں کے دوران ایک وسیع تر یورپ کا تصوّر ہی استحکام کا ایک کلیدی ستون فراہم کرتا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ عالمگیریت کے چیلنجوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکہ کو بے لگام مالیاتی منڈیوں اور حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے قرضوں کے نتائج سے بھی نمٹنا ہوگا۔ اپنے مشترکہ مسائل کو حل کرنے کےلئےاپنے ضابطوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔ اقتصادی نشوونما کی بدولت اپنے شہریوں کو روزگار فراہم کرنا ہوگا اور قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔

XS
SM
MD
LG