رسائی کے لنکس

امریکہ بھارت معاشی تعاون اور پاکستان


امریکہ بھارت معاشی تعاون اور پاکستان
امریکہ بھارت معاشی تعاون اور پاکستان

عالمی اقتصادی منظر نامے پر بھارت ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت ہے ۔ مختلف عالمی امور پر حکمت عملی کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے البرائٹ سٹون بریج انٹرنیشنل کے ایک ماہر ریمنڈ وکری کہتے ہیں کہ بھارت اور امریکہ کے اقتصادی تعلقات مضبوط کرنے سے حکمت عملی کے نکتہ نظر سے بھی دونوں ملکوں کے باہمی تعاون کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہناہے کہ امریکی سرمایہ کاری کی تنظیم گولڈ مین سیچس کے اندازے کے مطابق 2050ءتک بھارت دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی واحد بڑی معیشت ہو گی۔ امریکہ اور بھارت جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو خوش آمدید کہنے جیسی خصوصیات ہمیں قدرتی طور پر ایک دوسرے کے لیےاقتصادی اور حکمت عملی کے معاملات پر ایک دوسرے کا ساتھی بناتی ہیں۔

دہشت گردی کی روک تھام ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر امریکہ پاکستان سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ملکوں سے مزید تعاون کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ بھارت اور امریکہ کے اقتصادی تعلقات کے مختلف پہلووں پر اپنی کتاب میں ریمنڈ وکری نے 2001ءمیں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردی کے بعد امریکہ اور بھارت کے تعاون پر بھی بات کی ہے۔یہ کہتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی پر بھارت اور امریکہ کے تعاون کی ایک مثال 2008ءمیں ممبئی دہشت گرد ی کے ایک ملزم ڈیوڈ ہیڈلی کا مقدمہ امریکی شہر شکاگو میں چلایا جانا بھی ہے ۔

ریمنڈ وکری کہتے ہیں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ اقتصادی تعلقات ہر مرض کی دوا ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ روایتی طرز کے حفاظتی اور حکمت عملی سے متعلق اقدامات بھی ضروری ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا غلط ہے کہ ہم صرف بندوقوں گولیوں اور بمباری کی مدد سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں گے۔

لیکن بھارت کے ساتھ امریکہ کے اقتصادی تعلقات مزید مضبوط کرنے کے فوائد صرف دہشت گردی کے خاتمے یا بڑھتی ہوئی معیشت میں سرمایہ کاری کے مواقعوں تک ہی محدود نہیں ہوں گے۔

وکری کا کہناہے کہ ایک دوسری بڑی بات جو بھارت کے بارے میں امریکی پالیسی کو متاثر کرتی ہے، وہ چین کی ترقی ہے۔ میرے خیال میں امریکہ اور بھارت کے درمیان پر امن جوہری توانائی کے معاہدے کی بنیادبھی یہی تھی۔ جس میں سابق بش انتظامیہ نے کئی دہائیوں کی روایت کو توڑتے ہوئے بھارت کو جوہری ٹکنالوجی رکھنے والے ملکوں ٕمیں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا نہیں کر رہے تھے، لیکن بالآخر چین کے موازنے میں بھارت کی قابلیت میں اضافہ کر رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ اقتصادی تعاون میں بھارت کا اپنا فائدہ بھی ہے ، جو معیشت تک ہی محدود نہیں ہو گا۔

ان کا کہناتھا کہ گو بھارت نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا لیکن میرے خیال میں اب بھارت بھی چین کی ترقی کے پیش نظر اپنی حکمت عملی تشکیل دے رہا ہے جس میں امریکہ، یورپین یونین کے ملکوں اور جاپان کے ساتھ تعاون بڑھانا شامل ہے۔ اس میں امریکہ کا بہت اہم کردار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کے ساتھ تعاون کا بھارت کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔

بھارتی کابینہ نے اس ہفتے امریکی کمپنی بوئنگ سے فوجی جہازوں کی خریداری کےلیے چار ارب ڈالر کا منصوبہ منظور کیا ہے۔ اگر یہ منصوبہ حتمی طور پر منظور ہو گیا تو امریکہ میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔۔لیکن اقتصادی تعلقات میں پیش رفت کے باوجود بھارت اپنی مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی مخالفت کر رہا ہے۔

بھارت کا ایجنڈا بہت مختلف ہے۔ دوسری ترقی پذیر معیشتوں سمیت بھارت یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ سمیت دوسری ترقی یافتہ معیشتیں ان کے ایجنڈے پر تجارت میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔ اس موضوع پر مزید پیش رفت ہو سکتی ہے۔

امریکہ اور بھارت کے اقتصادی تعلقات میں بھارت کے ہمسایہ ملکوں کا مفاد بھی ہے۔پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کے ایرونڈ سبرامانین کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ملک اپنی معیشت میں بہتری لانے کے لیے بھارت سے اقتصادی تعلقات مضبوط کرنا چاہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے کچھ تاریخی اور سیاسی تناؤ میں بھی کمی واقع ہوجائے ۔

XS
SM
MD
LG