رسائی کے لنکس

ایران کے جوہری پروگرام پر کشیدگی میں کمی


مغربی ملکوں کے مذاکرات کار اس مہینے کے آخر میں بغداد میں ایران کے متنازعہ نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں مذاکرات کے اگلے راؤنڈ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جنگ کی پیشگوئیاں، فی الحال، ختم ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ اب بیشتر توجہ مذاکرات پر ہے۔

اس سال کے شروع میں، پورا مشرقِ وسطیٰ مسلح تصادم کے خطرے سے گونج رہا تھا۔

ایران نے خلیجِ فارس کے نزدیک جنگی مشقیں شروع کر دیں۔ اسرائیلی ہوائی جہازوں نے ایران حملے کی تیاری کے لیے مشقیں شروع کردیں۔ اور امریکہ کا کیل کانٹے سے لیس طیارہ بردار جہاز ایران کے ساحل کے نزدیک پہنچ گیا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دونوں طرف سے اس ساری کارروائی کا مقصد اکڑ فوں کا اظہار تھا۔ ادھر مغربی ملکوں نے ایران کے خلاف زیادہ سخت پابندیاں عائد کرنے کا عمل جاری رکھا۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے مہدی خالجی کا کہنا ہے کہ ’’یعنی یہ کہ اگر آپ جنگ دیکھنا نہیں چاہتے، تو پھر آپ کو نئی پابندیوں پرعمل کرنا ہو گا، اور حقیقت میں بڑی حد تک ان پر عمل کیا گیا۔‘‘

پھر گذشتہ مہینے استنبول کی میٹنگ کے بعد لب و لہجہ خاصا ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس میٹنگ میں ایران کی طرف سے مذاکرات کرنے والے لوگوں کا رویہ توقع سے زیادہ لچکدار تھا۔ ایران کے وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی نے کہا کہ’’اگر استنبول کے مذاکرات میں ہم ایک قدم آگے بڑھے ہیں، تو انشا اللہ بغداد میں ہم چند قدم اور آگے بڑھیں گے۔‘‘

ایران کا کہنا ہے کہ مغرب پابندیاں ختم کرے کیوں کہ ان کی وجہ سے اس کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے، لیکن مغرب مضبوطی سے اپنے موقف پر قائم ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ ’’ہم ایران پر پابندیاں اور دباؤ برقرار رکھیں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ بغداد میں مذاکرات کی میز پر کیا لے کر آتے ہیں، اور ہم پھر اسی کے مطابق جواب دیں گے۔‘‘

تجزیہ کار کہتےہیں کہ ایران کے ساتھ جو بھی معاملہ طے پائے، اس میں ایسی چیزیں شامل نہیں ہونی چاہئیں جن سے ایران کی سبکی ہونے کا تاثر ملے، یعنی سمجھوتہ ایسا ہونا چاہیئے جسے تہران اپنی فتح بنا کر پیش کر سکے ۔ مہدی خالجی کے مطابق ’’کیوں کہ ایران کے لیے ، دنیا میں، یا مسلمان ملکوں میں، اس کی ساکھ بھی اتنی ہی اہم ہے جتنے اس کے نیوکلیئر کارنامے۔‘‘

تجزیہ کار اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اسرائیل میں وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کی طرف سے ایران پر حملہ کرنے کی دھمکی کے بارے میں اختلاف رائے بڑھتا جا رہا ہے۔

یوول ڈسکن اسرائیل کی داخلی سکیورٹی سروس کے سابق سربراہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے نہ تو وزیرِ اعظم پر اور نہ وزیرِ دفاع پر کوئی اعتماد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ایسی قیادت پر بھروسہ نہیں کرتا جو مسیحائی کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہو۔‘‘

لیکن اسرائیل کے وزیرِ دفاع ایہود براک کہتے ہیں کہ اس قسم کے ناقدین ماضی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اپنے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں، ایران کا فریب اور جھوٹ مسلسل جاری ہے اور اس کا دستاویزی ثبوت موجود ہے۔ پھر بھی، دنیا کے بعض حصوں میں، اور ان میں کچھ اسرائیلی شخصیتیں بھی شامل ہیں جن کی اپنی سیاسی مصلحتیں ہیں، اس طرف سے آنکھیں بند رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘‘

امریکی انٹیلی جنس کے عہدے دار کہتے ہیں کہ ایران چاہتا ہے کہ اس کے پاس نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہو اور وہ اسے جب چاہے استعمال کر سکے، لیکن اس نے اب تک نیوکلیئر بم بنانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

لیکن مہدی خالجی کہتے ہیں کہ اگر ایران کے عزائم پر امن ہیں جیسا کہ وہ دعویٰ کرتا ہے، تو اسے اس کا ثبوت پیش کرنا چاہیئے۔ ان کے مطابق ’’ایران کو ثابت کرنا چاہیئے کہ وہ نیوکلیئر بم بنانے کا خواہشمند نہیں ہے اور وہ اس سلسلے میں اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے کو تیار ہے، اور اس میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری میں اعتماد قائم کر سکے۔‘‘

بغداد میں اب جو اگلے مذاکرات ہوں گے توقع ہے کہ ان میں مغربی ممالک ایران کے افژودگی کے پروگرام کے بارے میں کسی تصفیے کی کوشش کریں گے۔ اگر کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوئی، تو ایران کا بحران ایک بار پھر سنگین ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG