رسائی کے لنکس

قذافی دور لیبیا اور امریکہ کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے


قذافی دور لیبیا اور امریکہ کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے
قذافی دور لیبیا اور امریکہ کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے

اپریل 1986ء کے وسط میں، امریکی جنگی جہازوں نے قذافی کے ذاتی کمپاونڈ سمیت، بن غازی اور طرابلس پر بمباری کی ۔ لیبیا کے لیڈر کی گود لی ہوئی بیٹی سمیت ، درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔

لیبیا کے سابق لیڈر معمر قذافی کو عبوری حکومت کی فورسز نے ہلاک کر دیا ہے ۔ یوں قذافی کا 40 سالہ آمرانہ دورِ حکومت ختم ہو چکا ہے۔

معمر قذافی نے لیبیا کے شاہ ادریس کا تختہ الٹ کر، ایک فوجی انقلاب کے ذریعے یکم ستمبر ، 1969ءکو اقتدار پر قبضہ کیا تھا ۔ شاہ ادریس اس وقت علاج کے لیے ملک کے باہر گئے ہوئے تھے ۔ لیبیا پر سات کتابوں کے مصنف بروس جان کہتے ہیں کہ ابتدا میں قذافی اور امریکہ کے درمیان تعلقات اچھے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘شروع کے برسوں میں ان کی تمام تر توجہ عرب قومیت، عرب اتحاد اور عرب سوشلزم پر تھی ۔ شروع کے دو تین برسوں میں، بلکہ شاید 1974ء تک ، امریکی حکومت میں ایسے لوگ موجود تھے جن کا خیال تھا کہ ہم اس شخص اور اس کی حکومت کے ساتھ کام کر سکتے ہیں ۔ بعد میں اس نے نہ صرف شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں بلکہ ساری دنیا میں دہشت گردی سے ملتے جلتے طریقے استعمال کرنا شروع کر دیے ۔’’

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 1970ء کی دہائی میں قذافی نے لیبیا کو دوسرے عرب ملکوں کے ساتھ متحد کرنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر اس نے بعض ایسی تنظیموں کو مدد فراہم کرنی شروع کردی جو کچھ حکومتوں کی نظر میں دہشت گرد تھیں ، جیسے آئرش ریپبلیکن آرمی اور ابو ندال گروپ۔

واشنگٹن اور طرابلس کے درمیان تعلقات ریگن انتظامیہ کے دور میں انتہائی خراب ہو گئے۔ صدر ریگن نے قذافی کو مشرقِ وسطیٰ کا پاگل کتا کہا ۔

جان کہتے ہیں کہ دو واقعات کی وجہ سے امریکہ کا غیض و غضب انتہا کو پہنچ گیا۔ دسمبر 1985ء میں ، دہشت گردوں نے روم اور وی آنا کے ایئر پورٹس پر حملے کیے ۔ اور اپریل 1986ء میں، مغربی برلن کے ایک نائٹ کلب میں بم پھٹنے سے دو امریکی سپاہی ہلاک ہو گئے۔ جان کے مطابق‘‘اگرچہ ثبوت کمزور تھے لیکن امریکہ حکومت کا خیال تھا کہ ان دونوں واقعات میں قذافی اور اس کی حکومت کا ہاتھ ہے۔ خاص طور سے لا بیلے کلب کے واقعے پر ریگن انتظامیہ نے قذافی کی حکومت کو سزا دینے کا فیصلہ کیا اور اسے انتباہ کیا کہ اب اس قسم کی کسی کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔’’

اپریل 1986ء کے وسط میں، امریکی جنگی جہازوں نے قذافی کے ذاتی کمپاونڈ سمیت، بن غازی اور طرابلس پر بمباری کی ۔ لیبیا کے لیڈر کی گود لی ہوئی بیٹی سمیت ، درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔

کئی سال بعد، لیبیا کے مشتبہ ایجنٹوں نے پین ایم فلائٹ 103 میں بم لگا دیا ۔ جہاز اسکاٹ لینڈ کے قصبے لاکربی کے اوپر دھماکے سے پھٹ گیا اور تمام 270 مسافر ہلاک ہو گئے ۔ ان میں بہت سے امریکی تھے ۔ جان نے کہا کہ‘‘لاکربی پر بمباری کا واقعہ 1988ء میں ہوا ۔ اس کے بعد 1989ء میں نائجرکے اوپر فرانس جانے والی یو ٹی اے کی فلائٹ پر بمباری کا ایک اور واقعہ ہوا۔ ان دو حملوں کے نتیجے میں، برطانیہ اور فرانس نے اقوام ِ متحدہ میں لیبیا پر پابندیوں کے لیے کارروائی شروع کی، جب لیبیا کی حکومت نے ان واقعات میں ملوث مشتبہ ملزموں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ پابندیاں 1992ء میں شروع ہوئی تھیں اور اس عشرے کے آخر تک موئثر رہیں، جب قذافی کی حکومت نے بالآخر لاکر بی پر بمباری کے دو مشتبہ ملزموں کو حوالے کر دیا۔ ان میں سے ایک کو بعد میں مجرم قرار دیا گیا اور اسے سزا ہو گئی۔’’

2001ء میں جس شخص کو سزا ہوئی تھی وہ عبدل باسط المیگراہی تھا ۔ بروس جان کہتے ہیں کہ جب 2009ء میں اسکاٹ لینڈ کی حکومت نے المیگراہی کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ، یہ کہتے ہوئے رہا کرے یا کہ اسے مثانے کا کینسر ہو چکا ہے جو ناقابلِ علاج ہے، تو اس پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ان کہنا ہے کہ ‘‘اس وقت اسکاٹ لینڈ کی حکومت کا خیال یہ تھا کہ وہ تین مہینے کے اندر مر جائے گا۔ لیکن وہ ابھی تک زندہ ہے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فیصلے کی بنیاد کیا تھی، جو میڈیکل ثبوت پیش کیے گئے تھے، وہ کیا تھے۔’’

تجزیہ کار کہتےہیں کہ 2003ء میں قذافی نے قلا بازی کھائی ۔ اس نے لاکربی کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو ہرجانہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اور دوسری بات یہ کہ اس نے اعلان کیا کہ لیبیا وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور انھیں ہدف پر پہنچانے والے میزائلوں سے دستبردار ہو رہا ہے ۔

شام اور اسرائیل میں امریکہ کے سابق سفیر،ایڈورڈ ڈیجرےجیان کہتے ہیں کہ قذافی کو احساس ہو گیا تھا کہ اس کی پوزیشن بہت کمزور ہو چکی ہے ۔ ان کےمطابق ‘‘ 2003ء میں، ہمارا خیال تھا کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔جب قذافی نے دیکھا کہ امریکہ نے صدام حسین کا تختہ الٹنے کے لیے فوجی حملہ شروع کر دیا ہے، تو اسے صاف نظر آنے لگا کہ اگلی باری اس کی ہوگی ۔ اس نے اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے میں ہی خیریت جانی اور اس طرح مغربی ملکوں کے ساتھ اس کے تعلقات بحال ہو گئے۔’’

اس کے کئی سال بعد، 2006ء میں، امریکہ نے لیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کر لیے لیکن طرابلس میں امریکی سفیر 2009ء میں پہنچے ۔

امریکہ نے لیبیا کی نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کو ملک کی جائز حکومت کے طور تسلیم کر لیا ہے ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کونسل کے سامنے بہت مشکل کام ہے ۔ اسے ایک ایسے ملک کو تعمیر کرنا ہے جس پر چالیس برس سے ایک آمر حکومت کر رہا تھا۔

XS
SM
MD
LG