رسائی کے لنکس

وکی لیکز مقدمہ، بریڈلے میننگ کی سزا برقرار


اِن دستاویزات میں 2007ء کی وہ وڈیو رپورٹ بھی شامل تھی جِس میں ایک امریکی اپاچی ہیلی کاپٹر کو عراق کے مشتبہ باغیوں پر گولیاں چلاتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جِس میں ایک درجن افراد ہلاک ہوئے، جِن میں دو صحافی بھی شامل تھے

امریکی فوج کے ایک جج نے پرائیویٹ بریڈلی میننگ کو دی جانے والی 35 برس کی قید کی سزا کو برقرار رکھنے کے احکامات صادر کیے ہیں۔

بریڈلے نے ’وِکی لیکز‘ کو خفیہ سرکاری دستاویز فراہم کی تھیں۔

بریڈلے میننگ کو، جِنھیں چیلسیا میننگ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، 20 جولائی کو سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم، اُسے ’دشمن کی اعانت کرنے‘ کے سب سے بڑے الزام میں بری کردیا گیا تھا۔

سزا سنائے جانے کے بعد، میننگ نے اعلان کیا تھا کہ وہ باقی زندگی ایک خاتون کے طور پر بسر کرنے کی خواہش رکھتا ہے؛ کیونکہ دراصل وہ زنانہ جنس کا مالک ہے، جِس کی صحت سے متعلق دو فوجی ماہرین تصدیق کر چکے ہیں۔

سنہ 2013میں بریڈلے میننگ کے خلاف ہونے والے ’کورٹ مارشل ‘کی سزا کو برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد، اب یہ مقدمہ از خود، فوجداری مقدمات کی ملٹری کورٹ کے پاس چلا جائے گا۔

سنہ 2010میں میننگ انٹیلی جنس تجزیہ کار کے طور پر بغداد میں تعینات تھا، جب اُس نے وڈیو، سفارتی تاروں اور جنگ کے میدان کی روداد سے متعلق سات لاکھ دستاویزات ’وکی لیکز‘ کی شفافیت کے دعوے پر مبنی سائیٹ کے حوالے کی تھیں۔

اِن دستاویزات میں 2007ء کی وہ وڈیو رپورٹ بھی شامل تھی جِس میں ایک امریکی اپاچی ہیلی کاپٹر کو عراق کے مشتبہ باغیوں پر گولیاں چلاتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جِس میں ایک درجن افراد ہلاک ہوئے، جِن میں دو صحافی بھی شامل تھے۔
XS
SM
MD
LG