رسائی کے لنکس

امریکہ کی افغان حکمت عملی اور زمینی حقائق


General McCrystal
General McCrystal

افغانستان میں امریکی فوجی آپریشن کے دس سال مکمل ہوچکے ہیں ۔ اس عرصے میں طالبان حکومت کو بے دخل کیا گیا، نیاآئین لایا گیا اوراب وہاں صدر کرزئی کی منتخب حکومت طالبان کو حکومت میں شامل کرنے کی مسلسل کوششیں کررہی ہے ۔ماہرین کہتے ہیں ان دس برسوں کے دوران امریکہ سے کئی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔جس کے اثرات افغانستان میں محسوس کیا جاسکتے ہیں۔

حال ہی میں وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں سابق وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے امریکی فوجی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان اور افغان لوگ پہلے سے کہیں بہتر حالات میں ہیں۔

رمز فیلڈ اس دور میں وزیر دفاع تھے جب امریکہ نے افغانستان اور پھر بعد میں عراق میں جنگوں کا آغاز کیا۔ واشنگٹن میں بعض ماہرین متفق ہیں کہ امریکہ کے مارچ2003 ءمیں عراق پر حملے کے فیصلےسے افغان جنگ کو دھچکا لگا تھا۔

صدر اوباما نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد افغانستان میں جنگی حکمت عملی کادوبارہ جائزہ لیا اور اس میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے جارج ڈبلیو بش کے دور کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو عہدے پر برقرار رکھا جو فوج میں اضافے کےحامی تھے۔

افغانستان میں امریکی اوراتحادی افواج کے سابق کمانڈر جنرل اسٹنلے مک کرسٹل اوباما انتظامیہ کی حکمت عملی کے کچھ پہلوؤں پر اختلاف کی وجہ سے اپنے عہدے سے ہاتھ تو دھو بیٹھے مگر ماہرین کا کہناہے کہ افغانستان میں جنرل میک کرسٹل کا امریکی اور نیٹو فورسز کا کمان سنبھالنا اہم قدم تھا ۔

لارنس کارب ریگن انتظامیہ میں امریکہ کے نائب وزیر دفاع رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ افغان جنگ کے حوالے سے پالیسی میں سب سے اہم تبدیلی 2009 ءمیں صدر اوباما کی افغانستان میں موجود امریکی فوج میں تین گنا اضافہ تھا۔ دو سال بعد اب امریکی دستوں میں کمی کا عمل شروع ہورہا ہے۔ مگر امریکی دانشور اور مصنف پیٹر ٹامسن ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی اضافے سے کچھ فائدہ ہوا ہے مگر حقیقی معنوں میں جو عسکری صلاحیت حاصل کی جا سکتی تھی وہ نہیں ہوسکی۔ کیونکہ جب تک عسکریت پسند گروہوں جیسے حقانی نیٹ ورک، طالبان یا گلبدین حکمت یار کی محفوظ پناہ گاہیں موجود رہیں گی اور ان عناصر کی تربیت ہوتی رہے گی ۔، وہاں انتشار موجود رہے گا ۔

دفاعی امور کےکچھ تجزیہ نگار وں کا خیال ہے کہ جنرل پیٹریس کے امریکی حساس ادارے سی آئی اے کے سربراہ کے طور پر تعیناتی اور لیون پنیٹا کوپیٹاگون کا سربرا ہ بنانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی انتظامیہ افغانستان میں موجودہ حکمت عملی کا تسلسل چاہتی ہے۔لیکن کارب لارنس اسے حکمت عملی کی ایک بڑی تبدیلی قرار دیتے ہیں ۔

پیٹر ٹامسن کہتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے افغان عوام نے کبھی بھی بیرونی افواج کو اپنی سرزمین پر تسلیم نہیں کیا اس لئے امریکی فوج کے انخلا ءکا آغاز ایک مثبت قدم ہوگا مگر وہاں مستقل بنیادوں پر امن واستحکام کا دارومدار بہت حد تک افغان سیکورٹی فورسزاور فوج کے سیکورٹی انتظامات سنبھالنے کی صلاحیت پر ہوگا۔

XS
SM
MD
LG