رسائی کے لنکس

امریکی مسلمانوں کے بارے خدشات


امریکی مسلمانوں کے بارے خدشات
امریکی مسلمانوں کے بارے خدشات

اس سے پہلے ایک اور گواہ نونی ڈاروش نے جو مصری امریکی ہیں اور اسلام کو ترک کر چکی ہیں، نے الزامات عائد کیے اور کہا یہ غیر مسلموں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ ڈاروش کے بیان پر کمیٹی کے ایک رکن، اسٹیٹ سینیٹر ایرک ایڈمز (Eric Adams) نے جذباتی ردعمل کا اظہار کیا۔ انھوں نے اپنے نکتے کی وضاحت کے لیے قرآن شریف کو ہاتھ میں لے کر کہا کہ ’’ہمارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاور قرآن کی وجہ سے نیچے نہیں گرے۔ یہ قرآن کا کام نہیں تھا۔ آپ مختلف مذاہب اور ثقافتوں والے اس ملک میں نفرت اور زہر پھیلا رہی ہیں‘‘۔

جمعہ کے روز ریاست نیو یارک کی سینیٹ کی کمیٹی میں انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کے بارے میں سماعت اس سوال پر گرما گرم بحث میں تبدیل ہو گئی کہ کیا امریکی مسلمان کمیونٹی دہشت گردی پھیلا رہی ہے۔

نیو یارک اسٹیٹ ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی نے مین ہیٹن میں پولیس، امیگریشن اور ٹرانسپورٹیشن کے عہدے داروں کو جمع کیا تھا تاکہ بنیادی سہولتوں کی سیکورٹی، زیرزمین راستوں کے اندر موئثر ریڈیو کمیونیکیشن اور بحری جہازوں اور زیرِ زمین ٹرینوں پر حملوں سے بچاؤ جیسے موضوعات پر بات چیت ہو سکے۔ لیکن اس سماعت میں تفصیلی بحث اس خطرے کے بارے میں ہوئی کہ امریکی مسلمان اس قسم کے حملے کر سکتے ہیں۔

پہلے گواہ نیو یارک کے کانگریس مین پیٹر کنگ تھے۔ انھوں نے امریکی مسلمانوں کی طرف سے اس قسم کے ممکنہ حملوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی مسلمان کمیونٹی میں ننانوے فیصد لوگ بڑے اچھے امریکی ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ دشمن یا وہ لوگ جنھیں القاعدہ بھرتی کر رہی ہے ،مسلمان کمیونٹی میں رہتے ہیں، اور ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنا چاہیئے‘‘۔

ریگن انتظامیہ میں محکمۂ دفاع کے ایک سابق عہدے دار فرینک جیفنی نے، جو آج کل غیر جانبدار سینٹر فار سکیورٹی پالیسی کے چیئرمین ہیں، الزام لگایا کہ مسلمان چوری چھپے جہاد میں مصروف ہیں۔ انھوں نے الزام لگایا کہ انہیں امریکہ عزیز ہے لیکن وہ دراصل امریکی آئین کی جگہ شرعی قانون لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ شمالی امریکہ میں دہشت گردوں کے کئی درجن تربیتی کیمپ موجود ہیں جہاں حکام اپنی زندگی کو درپیش خطرے کی وجہ سے داخل ہونے کی جرأت نہیں کرتے۔ ’’میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اس اسٹیٹ سمیت، اسلام برگ جیسی بستیاں موجود ہیں جہاں کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔ اس بات کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ ایف بی آئی اور نفاذِ قانون کے مقامی ادارے ان عمارتوں میں داخل نہیں ہو سکتے جہاں اسلحہ کی تربیت اور دھماکہ خیز مادے استعمال کیئے جا رہے ہیں‘‘۔

اسٹیٹ کے سینیٹر جو گیرفو (Joe Griffo) نے جیفنی سے ان الزامات کا ثبوت مانگا۔ جیفنی نے کہا کہ اس قسم کے کیمپوں کا دستاویزی ثبوت موجود ہے اور انھوں نے کمیٹی اور میڈیا کو چیلنج کیا کہ وہ اس معاملے کی طے تک پہنچیں۔

اس سے پہلے ایک اور گواہ نونی ڈاروش نے جو مصری امریکی ہیں اور اسلام کو ترک کر چکی ہیں، نے الزامات عائد کیے اور کہا یہ غیر مسلموں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ ڈاروش کے بیان پر کمیٹی کے ایک رکن، اسٹیٹ سینیٹر ایرک ایڈمز (Eric Adams) نے جذباتی ردعمل کا اظہار کیا۔ انھوں نے اپنے نکتے کی وضاحت کے لیے قرآن شریف کو ہاتھ میں لے کر کہا کہ ’’ہمارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاور قرآن کی وجہ سے نیچے نہیں گرے۔ یہ قرآن کا کام نہیں تھا۔ آپ مختلف مذاہب اور ثقافتوں والے اس ملک میں نفرت اور زہر پھیلا رہی ہیں‘‘۔

کمیٹی کے رکن لی زیلڈن (Lee Zeldin) نے درمیانی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ تلخ بحث کے باوجود، اس سماعت میں ہر ایک کی مشترکہ خواہش یہی ہے کہ نیو یارک کو محفوظ بنایا جائے۔

ایک گواہ کونسل آن امریکن اینڈ اسلامک ریلیشن کے سائرس میک گولڈرک (Cyrus McGoldrick) نے کہا کہ ڈاروش اور جیفنی خوف و دہشت پھیلا رہےہیں۔ کمیٹی کے چیئرمین جرگوری بال (Gregory Ball) نے جواب دیا کہ بعض دوسرے لوگوں نے ایسے ہی الزامات کونسل کے خلاف عائد کیے ہیں۔

مین کنگ نے کہا کہ بعض امریکی مسلمان لیڈروں کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار ہیں جب کہ بعض دوسروں سے انہیں شدید اختلاف ہے۔ وائس آف امریکہ نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ ملنے کو کیوں تیار ہیں جن سے انہیں اختلاف ہے تو کنگ نے کہا کہ جس کسی کے پاس کوئی تعمیری خیال ہو وہ اس سے ملنے کو تیار ہیں۔

XS
SM
MD
LG