رسائی کے لنکس

براک اوباما کی مقبولیت میں اضافہ


براک اوباما کی مقبولیت میں اضافہ
براک اوباما کی مقبولیت میں اضافہ

رائے عامہ کے ایک نئے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ بیشتر امریکی صدر براک اوباما کو ذاتی حیثیت میں پسند کرتے ہیں لیکن ان کی پالیسیوں کے بارے میں ان کے درمیان سخت اختلاف ہے۔ ادھر بعض ریپبلیکنز نے جو اگلے سال کے صدارتی انتخاب میں صدر اوباما کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں 2012 کی انتخابی مہم میں شمولیت کے لیے کچھ اقدامات شروع کر دیے ہیں۔

کوینیپیک یونیورسٹی (Quinnipiac University) کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ بیشتر امریکیو ں کی نظر میں صدر اوباما پسندیدہ شخصیت کے مالک ہیں لیکن جب ان کی پالیسیوں کا سوال پیدا ہوتا ہے تو ملک تقسیم ہو جاتا ہے۔ پولسٹر پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ’’ہر چار میں سے تین امریکی یعنی 74 فیصد کہتے ہیں کہ وہ صدر اوباما کو پسند کرتے ہیں لیکن صرف 42 فیصد کو ان کی پالیسیاں پسند ہیں۔ یہ بہت بڑا فرق ہے اور صدر کے دوبارہ منتخب ہونے میں سوال یہ ہوگا کہ ان کی شخصیت اور ان کی پالیسیوں میں سے کون سی چیز زیادہ اہم ہو گی‘‘۔

مسٹر اوباما کہتے ہیں کہ معیشت کے بارے میں ان کی بعض پالیسیوں کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ روزگار کے بارے میں تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوا ہے کہ بے روزگاری کی شرح اب نو فیصد سے کم ہوگئی ہے۔ یہ شرح پچھلے دو برسوں میں سب سے کم ہے۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ ’’حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن ہمیں اسی سمت میں کام جاری رکھنا چاہیئے اور حالات کو مزید بہتر بنانا چاہیئے‘‘۔

پچھلے چند مہینوں میں صدر اوباما کی کارکردگی کی شرح رائے عامہ کے کئی جائزٔوں کے مطابق بہتر ہوئی ہے لیکن سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دوبارہ منتخب ہونے کے لیئے ان کی امیدوں کا انحصارامریکی معیشت میں بہتری پر ہے۔

تجزیہ کار چارلی کک کہتے ہیں کہ جیسے جیسے 2012 کی مہم قریب آ رہی ہے روزگار کی صورت حال میں بہتری صدر کے لیے اہم ہوتی جا رہی ہے۔’’ میں یہ جاننا چاہوں گا کہ بے روزگاری کی شرح کیا ہے کیوں کہ میرے خیال میں یہ چیز فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریپبلیکن امید وار اہم نہیں ہے لیکن یہ انتخاب موجودہ صدر کے بارے میں ایک طرح سے ریفرینڈم ہوتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ لوگ ووٹ ڈالتے وقت اپنے اقتصادی مفاد کو دیکھتے ہیں‘‘۔

توقع ہے کہ صدارت کے کئی ریپبلیکن امیدوار اگلے چند مہینوں میں صدارتی انتخاب کی دوڑ میںشامل ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیں گے۔ لیکن اب تک انتخابی مہم میں تیزی نہیں آئی ہے۔

ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر Newt Gingrich نے گذشتہ ہفتے ایک ویب سائٹ لانچ کی اور ووٹرز کو مدعو کیا کہ کہ وہ اگلے سال وائٹ ہاؤس کے لیے کوشش کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔ اور ریاست میسا چوسٹس کے سابق گورنر مٹ رومنی نے صدر اوباما کے علاج معالجے کے قانون پر تنقید کی۔ یہ تنقید ریاست نیو ہمپشائر میں کی گئی جو ایسی ریاست ہے جہاں شروع کے دنوں میں پرائمری انتخاب ہوتا ہے ۔ ’’ایک چیز جو میں کبھی نہیں کروں گا وہ یہ ہے کہ میں ریاستوں کے آئینی اختیارات پر قبضہ نہیں کروں گا جیسا کہ تمام ریاستوں پر علاج معالجے کا ایک وفاقی قانون عائد کر کے کیا گیا ہے۔ میں اوباما کیئر کو منسوخ کر دوں گا‘‘۔

چار سال پہلے صدارتی انتخاب میں شرکت کرنے والے تمام بڑے امیدوار وں نے اس مرحلے پر سرکاری طور پر مقابلے میں شرکت کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن 2012 کے لیے ریپبلیکن امید وار بہت آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں اور بعض ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ رائے عامہ کے جائزوں میں صدر اوباما کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ سینٹر فار امریکن پراگریس کے تجزیہ کار فیض شاکر کہتے ہیں’’ریپبلیکنز اوباما کو چیلنج کرنے میں کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں جب کہ چند مہینے پہلے وہ شاید بڑی تیزی سے سامنے آ جاتے۔ اس کی ایک وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ سیاسی طور پر اوباما کا ستارہ عروج پر ہے اور معیشت کی حالت بھی بہتر ہو رہی ہے‘‘۔

لیکن بہت سے ریپبلیکن اس دلیل کو قبول نہیں کرتے۔ امریکن انٹرپرائز انسٹیٹویٹ کے جان فارٹائیرکہتے ہیں کہ’’میرے خیال میں صدر کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ہمیں اس میں مبالغے سے کام نہیں لینا چاہیئے۔ صدر یقینی طور پر بیچ میں کہیں ہیں۔ وہ اس مرحلے میں جیت سکتے ہیں اور وہ ہار بھی سکتے ہیں لیکن وہ ایسے امیدوارنہیں ہیں جن سے ریپبلیکنز کو ڈر لگے‘‘۔

ریپبلیکن کاکس اور پرائمری مقابلوں کا آغاز اگلے سال کے شروع سے پہلے نہیں ہوگا لیکن اس سال مئی میں ریپبلیکن امیدواروں کے درمیان مباحثے شروع ہو جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG