رسائی کے لنکس

صدر براک اوباما کے لیے سال 2010ء کے چیلنجز


صدر براک اوباما کے لیے سال 2010ء کے چیلنجز
صدر براک اوباما کے لیے سال 2010ء کے چیلنجز

سیاسی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ 2010ء کا سال صدر براک اوباما اور ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ بیشترتجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ اس سال امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخاب میں ریپبلیکنز کو مزید کچھ نشستیں مِل جائیں گی اور انتخابی مہم میں صدرکی مقبولیت اورصحت کی دیکھ بھال کے نظام میں اصلاح کا منصوبہ خاص طور سے زیرِ بحث آئے گا۔

لاس ویگاس کی ایک نواحی بستی میں ریڈ راک ڈیموکریٹک کلب کی حالیہ ماہانہ میٹنگ میں پارٹی کے مقامی ارکان نے صدر اوباما کی گرتی ہوئی مقبولیت اور نومبر کے انتخابات پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ ڈیموکریٹ جان پینٹیسیلو نے کہا کہ ’’صدر کی مقبولیت پورے ملک میں کم ہوئی ہے اور ریاست نیواڈا میں بھی یہی حال ہے‘‘۔

لیکن ایک اور ڈیموکریٹ ٹریسی لارنس کا خیال ہے کہ کانگریس میں علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے قانون کی منظوری ڈیموکریٹس کے لیے اچھی خبر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اگرچہ علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے قانون میں وہ سب چیزیں نہیں ہیں جو ہم چاہتے تھے، پھر بھی یہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ صدر اوباما کی مقبولیت واپس آنا شروع ہو جائے گی کیوں کہ انھوں نے بالآخر اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اس مرحلے پر یہ قانون منظور نہیں کرا سکیں گے‘‘۔

مقامی ریڈیو پروگرام کے لبرل میزبان سرکوپرر اپنے پروگرام میں ڈیموکریٹس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ڈیموکریٹس پر زور دے رہے ہیں کہ جیسے جیسے انتخاب نزدیک آئے وہ زیادہ ثابت قدم ہوتے جائیں ’’میں ڈیموکریٹس کو جتنا مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں وہ اتنے مضبوط نہیں ہیں۔ جب ریپبلیکنز کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر کوئی چیز انہیں روک نہیں سکتی۔ انہیں اپنی ماں، اپنی بہن یا اپنے چھوٹے بچے کو کچل کر گذرنا پڑے، وہ رکیں گے نہیں، اور جو ان کا مقصد ہے اسے حاصل کر کے رہیں گے‘‘۔

اس کے چند روز بعد جب ریپبلیکنز ایک بار میں ریڈیو کے قدامت پسند میزبان راجرہیجکاک کوسننے جمع ہوئے تومنظر بالکل مختلف تھا۔ حاضرین میں ریپبلیکن شیرون اینجل بھی شامل تھیں۔ انھیں امید ہے کہ وہ نومبر کے انتخاب میں ریاست نیواڈا سے سینیٹ کی سیٹ جیت لیں گی۔ اپنی انتخابی مہم میں وہ صدر اوباما پر سخت الفاظ میں تنقید کریں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ’’صدر بننے کے بعد مسٹراوباما نے جو بھی اقدام کیا ہے، وہ چھوٹے کاروباری اداروں، محنت کشوں، غرض امریکہ میں ہر ایک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے ۔ امریکی اب اپنی آئینی حکومت واپس لینا چاہتے ہیں‘‘۔

اینجل ان کئی ریپبلیکنزمیں شامل ہیں جو یہ امید کر رہے ہیں کہ وہ سینیٹر ہیری ریڈ کو نومبر میں چیلنج کرنے کے لیے جون کا پرائمری انتخاب جیت لیں گے۔ سینیٹر ریڈ نے صدر اوباما کی علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کا قانون پاس کرانے میں بہت نمایاں کردار ادا کیا تھا۔

نیواڈا میں رائے عامہ کے کئی جائزوں میں ریڈ بہت پیچھے ہیں۔ لیکن لاس ویگاس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈنر میں ا’نھوں نے انتخابی مقابلے کا کوئی ذکر نہیں کیا ’’کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گذرتا جب مجھے یہ احساس نہ ہوتا ہو کہ میرے یہاں موجود ہونے کی صرف ایک ہی وجہ ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ ریاست نیواڈا کے لوگوں کا میرے ساتھ ایک کنٹریکٹ ہے۔ میں نے طے کیا ہے کہ اس کنٹریکٹ کی تجدید کروں اور ایسا کرنے کے لیے مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے‘‘۔

نیواڈا کی اٹارنی جنرل کیتھرین کارٹز ماسٹو جو ڈیموکریٹ ہیں اس سال پھر انتخاب لڑ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ووٹرز دونوں پارٹیوں کے امید واروں سے یہ امید کررہے ہیں کہ وہ کمزور اقتصادی حالت سے نمٹنے میں مدد دیں گے ’’ہمارے ہاں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ قرض ادا نہ کرسکنے کہ وجہ سے مکان ہاتھ سے نکلنے کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن پر سب کو تشویش ہےاورلوگ ان کا کوئی حل چاہتے ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ امید وارآئیں اور انہیں بتائیں کہ وہ ان مسائل کو کس طرح حل کریں گے اور روزگار کے مواقع کس طرح پیدا کریں گے‘‘۔

ریاست نیوڈا میں جو سروے ہوئے ہیں ان کے مطابق ریڈ اپنے کئی ممکنہ ریپبلیکن حریفوں سے پیچھے ہیں۔ لیکن ماسٹواور دوسرے ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ ابھی انتخاب میں بہت وقت باقی ہے اور اس مرحلے پر یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ ہیری ریڈ ہار جائیں گے ۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار سخت مقابلوں کے بعد انتخاب جیت چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG