رسائی کے لنکس

امریکی صدارتی امیدواران کی اورلینڈو حملے کی مذمت


کلنٹن: ’’اورلینڈو کا دہشت گرد تو ہلاک ہوگیا۔ لیکن، جس وائرس نے اسے متاثر کیا وہ ابھی زندہ ہے‘‘؛ ادھر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’یہ قاتل اس وجہ سے امریکہ میں موجود تھا کہ ہم نے اُس کے خاندان کو امریکہ آنے کی اجازت دی تھی‘‘

سرکردہ امریکی صدارتی امیدواروں نے پیر کے روز فلوریڈا کے شہر اورلینڈو کے ہم جنس پرست نائٹ کلب میں ہونے والی شوٹنگ کی واردات پر سخت الفاظ میں ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ اتوار کے روز کے اِس واقع میں 49 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوئے۔ یہ ملکی تاریخ میں شوٹنگ کا سب سے بدترین واقعہ ہے۔ مسلح حملہ آور، عمر متین امریکی شہری تھا جس کے والدین کا تعلق افغانستان سے تھا۔


شوٹنگ کے بعد اپنے پہلے خطاب میں، ڈیموکریٹک پارٹی کی متوقع صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے کلیولینڈ میں اپنے حامیوں سے کہا کہ ’’اورلینڈو کا دہشت گرد تو ہلاک ہوگیا۔ لیکن، جس وائرس نے اسے متاثر کیا وہ ابھی زندہ ہے‘‘۔

انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کلنٹن نے ایک کثیر جہتی انداز اپنانے پر زور دیا جو منصوبہ دہشت گرد گروپوں کے آن لائن نیٹ ورک کو منتشر کرے گا، مقامی اور وفاقی قانون کے نفاذ کے اداروں کے درمیان انٹیلی جنس کے تبادلے میں مدد دے گا اور اتحادی ملکوں سے کہے گا کہ وہ امریکہ اور یورپ میں ممکنہ دہشت گردوں کو تشدد کی راہ پر ڈالنے اور بھرتی سے روکنے میں مدد دے گا۔

بظاہر ری پبلیکن پارٹی کے متوقع صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کےصدر براک اوباما اور دیگر ڈیموکریٹس کی جانب سے دہشت گردوں کے لیے ’’انتہا پسند‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کر رہے ہیں، کلنٹن نے اس سے قبل ’سی این این‘ کو بتایا کہ اُنھیں یہ لفظ استعمال کرنے میں کوئی جھجھک نہیں۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ وہ سارے مذہب کو بدنام کرنے اور اُس سے جنگ کا اعلان کرنے سے انکاری ہیں۔

ایسا کرنے کا مقصد، بقول اُن کے، یہ ہوگا کہ ہم داعش کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں‘‘۔ داعش کا مخفف دولت اسلامیہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

کلنٹن نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے رابطہ کریں تاکہ ’’اس خطرے کو ناکام بنانے کے لیے ہماری مدد کریں‘‘۔ اُنھوں نے اسلحے کی ملکیت کے قوانین، جن میں حملہ آور ہونے کے ہتھیاروں پر بندش سے متعلق ’’عام فہم إصلاحات‘‘ کی ضرورت پر زور دیا۔

جب صدر اوباما نے اتوار کے روز وائٹ ہاؤس سے بیان دیا اُنھوں نے ’’ریڈیکل‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا، جس پر ٹرمپ نے انتہاپسندی کے معاملے پر اوباما کے انداز پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ صدر کو ’’مستعفی ہوجانا چاہیئے‘‘۔

دریں اثنا، ٹرمپ نے امریکہ میں مسلمان تارکینِ وطن کے داخلے پر پابندی کا مطالبہ دہرایا۔

بقول اُن کے، ’’یہ قاتل اس وجہ سے امریکہ میں موجود تھا کہ ہم نے اُس کے خاندان کو امریکہ آنے کی اجازت دی‘‘۔

ٹرمپ نے یہ بات نیو ہیمپشائر میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ یہ پابندی اُسی وقت اٹھائیں گے جب حکومت کے پاس یہ استعداد ہوگی کہ وہ ’’اچھی طرح سے‘‘ لوگوں کی ’اسکریننگ‘ کرسکے۔

ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کا اِمی گریشن نظام درست کام نہیں کر رہا، جب کہ انتظامیہ اس بگاڑ کی ذمہ دار ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو ’’معاملہ تبدیل ہوجائے گا‘‘، اور ’’فوری تبدیل ہوگا‘‘۔

ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایک ایسے قومی دھارے کی نوعیت کی اِمی گریشن پالیسی کے خواہاں ہیں جس سے امریکی اقدار کی غمازی ہوتی ہو، جس میں مقامی، وفاقی اور بیرون ِملک انٹیلی جنس کارروائیوں کے درمیان زیادہ تعاون یقینی ہو۔

اس سے قبل، پیر ہی کے روز ٹرمپ نے ’سی این این‘ کو بتایا کہ مسلمانوں کو مشتبہ افراد کی رپورٹ دینی ہوگی، اور اُنھوں نے اسلحے کی ملکیت کے قوانین کے بارے میں اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔ اُن کے الفاظ میں، ’’اسلحے کے مالکان کو اپنی حفاظت کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اگر اِن افراد (نائٹ کلب) کے پاس اسلحہ ہوتا، تو اُنھیں اس المیے سے دوچار نہ ہونا پڑتا‘‘۔

ہفتے کی شب ایک مسلح شخص نے امریکی شہر اورلینڈو میں واقع ہم جنس پرستوں کے ایک کلب میں گھس کر فائرنگ کردی تھی جس سے 49 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوئے ہیں۔

ملزم کے آبائی وطن افغانستان کے صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی اورلینڈو واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے امریکی حکومت اور عوام سے اظہارِ تعزیت کیا ہے۔

واقعے پر اظہارِ افسوس کرنے والوں میں پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف، رومن کیتھولک مسیحیوں کے پیشوا پاپ فرانسس، برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم ، جرمن چانسلر آنگیلا مرخیل، فرانس کے صدر فرانسواں اولاند، چین کے صدر ژی جن پنگ، جاپان کے وزیرِ اعظم شینزو ایبے، آسٹریلیا کے وزیرِاعظم میلکم ٹرن بل، فلسطین کے وزیرِ اعثم رامی حمد اللہ، اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو اور کئی دیگر عالمی رہنما شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG