رسائی کے لنکس

قومی قرضے کی حد میں اضافہ، سمجھوتہ مشکل ہی سے خوبصورت تصفیہ قرار پائے گا


اسپیکر جان بینر
اسپیکر جان بینر

امریکی اخبارات سے: اخبار’ یو ایس اے ٹوڈے ‘ کہتا ہے کہ اِس سے یہ ہوا ہے کہ قرض اور خسارے کا یہ قضیہ کسی بعد کے مرحلے پر کسی اور کمیٹی کے سُپرد ہوجائے گا۔ لیکن ، بنیادی مسئلہ حل طلب رہے گا

امریکی قومی قرضے کی حدپر ری پبلیکن اور ڈیموکریٹوں کے مابین جو سمجھوتہ بالآخر ہوا ہے اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ قرض نادہندہ کے الزام سے بچنے کے لیے یہ سمجھوتہ مشکل ہی سے کوئی خوبصورت تصفیہ قرار پائے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ اِس سے یہ ہوا ہے کہ قرض اور خسارے کا یہ قضیہ کسی بعد کے مرحلے پر کسی اور کمیٹی کے سُپرد ہوجائے گا۔ لیکن ، بنیادی مسئلہ حل طلب رہے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ سیاست ہے جو امکانات کا فن ہوتی ہے، جِس میں منتخب عہدے داروں کی کم سے کم ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کو بحران سے محفوظ رکھیں اور وہ مقصد اِس معاہدے سے حاصل ہو جائے گا یعنی اس سے قبل کہ خزانہ پیسے سے خالی ہوجائے قوم کی قرض حاصل کرنے کی حد میں اضافہ ہوجائے گا۔

صدر اوباما اور دونوں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے لیڈروں کے درمیان معاہدے کے تحت قرض لینے کی حد 24کھرب ڈالر بڑھائی جارہی ہے اور اِس طرح اوباما انتظامیہ اگلے سال کے انتخابی دور سے گزر جائے گی جِس دوران پبلک میں اِس پر سیر حاصل بحث ہوگی کہ آگے کیا کچھ ہونے والا ہے۔

ایک عشرے کے دوران اخراجات میں کٹوتی کے وعدے کیے جائیں گے بعض پروگراموںٕ پر شائد بہت جلد کلہاڑابھی چلایا جائے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی حکومت اس وقت جس نہج پر چل رہی ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگلے دس سال کے دوران قومی قرضے میں مزید 95کھرب ڈالر کا اضافہ ہوجائے گا۔ اِس کے لیے 24کھرب ڈالر کی رقم ظاہر ہے کافی نہیں ہے۔

ابھی چند ہفتے قبل صدر اوباما اور اسپیکر جان بینر نے ایک عظیم سودے کی تلاش میں جتنی رقم کا مطالبہ کیا تھا یہ اُس کے نصف سے زرا زیادہ ہے۔

اِس منصوبے میں اُن امور پر کوئی فیصلے کرنے سے پہلو تہی کی گئی ہے جن کی وجہ سے خسارے میں بھاری اضافہ ہو جاتا ہے۔

خاص طور پر صحت کی نگہداشت سے پیدا شدہ افراط ِ زر جو باقی تمام امور کی وجہ سے پیدا شدہ مجموعی افراط زر سے بھی زیادہ ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اِس وقت ٹیکسوں کے جو ضوابط نافذ ہیں وہ 1950ء کی دہائی کی شرح کے ہیں اور اُن کی مدد سے 21ویں صدی کی عوامی توقعات کو پورا کیا جار ہا ہے اور وہ بھی حد سے زیادہ فضول خرچی اور پیچیدہ انداز میں۔

’شکاگو ٹربیون‘ صدر اوباما کی پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آزاد خیال طبقے کو امید تھی کہ اوباما قدامت پسند پالیسیوں کو بدل کر حکومت کو سرگرم بنانے کے ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔

اخبار کہتا ہے کہ ری پبلیکن عام طور پر مسٹر اوباما کو سوشلسٹ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ لیکن، اُن کی صدارت کے بے لاگ تجزئے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ وہ معتدل حد تک قدامت پسند ہیں۔ اِس کی مثالیں دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اُن کے مشیروں نے جس سائیز کی Stimulous Plan کا مشورہ دیا تھا اُنھوں نے اس کو آدھا کردیا۔ اُنھوں نے اپنے پیشرو جارج بُش کی جنگی اور قومی سلامتی کی پالیسیوں کو بغیر کسی تبدیلی کے برقرار رکھا۔ حتیٰ کہ، اُن کے وزیرِ دفاع تک کو بھی اپنی کابینہ میں شامل رکھا۔ اُنھوں نے قدامت پسندوں کے ان مطالبات کو بلا چوں و چرا قبول کر لیا کہ بُش دور میں ٹیکسوں میں جو چھوٹ دی گئی تھی اُن کو برقرار رکھا جائے اور اس کے عوض اُنھوں نے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا اور پچھلے ہفتوں کے دوران اُنھوں نے خسارے میں کمی کرنے کے جن اقدامات کی حمایت کی ہے وہ ری پبلیکنوں کی تجویز کردہ تخفیف سے بھی زیادہ ہیں۔

صدر اوباما نے موٹر کار بنانے والوں اور ماحولیات کے کارپردازوں کے ساتھ مستقبل کی کاروں کے معیاروں کے بارے میں ایک سمجھوتے کا اعلان کیا ہے۔ اِس پر’ لاس اینجلس ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اس سمجھوتے کے تحت 2025ء تک کا موٹر کاریں کم ایندھن سے زیادہ مسافت طے کریں گی۔ اُس وقت فی گیلن پیٹرول سے کاریں ساڑھے 54میل کی مسافت طے کرسکیں گی۔

جب اِس معیار پر پورے طور پر عمل درآمد شروع ہوگا تو آج کے مقابلے میں کاروں سے خارج ہونے والی کثافت کی مقدار آدھی رہ جائے گی اور تیل کے استعمال میں تقریباً 40فی صد کفایت ہوجائے گی۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے۔ امریکہ میں گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرنے والوں میں کاروں کا حصہ 27فی صد ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ قدامت پسند پنڈت اور تیل کی صنعت کے لابی اسٹوں کو شکایت رہے گی کہ ایسی کاریں پیٹرول میں کفایت تو کریں گی لیکن وہ مہنگی ہوں گی اور صارفین کو چند ہی قسم کی گاڑیوں میں سے ہی انتخاب کرنا ہوگا۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ یہ سب بکواس ہے۔ اگرچہ قیمتیں ضرور بڑھ جائیں گی لیکن صارفین پیٹرول پر اخراجات میں کفایت کے سبب چند برسوں کے اندراپنے اِس خسارے کو پورا کرسکیں گے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG