رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ایران کا جوہری پروگرام


ایران کے ساتھ رابطے کےلئے ترک وزیر اعظم اردغان کا وسیلہ استعمال کرنا اس بات کا ڈرامائی ثبوت ہے کہ صدر اوباما نے اس ترک لیڈر کے ساتھ قریبی راہ و رسم بڑھا لی ہے

معروف تجزیہ نگار ڈیوڈ اِگ نیٹیس نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں انکشاف کیا ہے کہ صدر اوباما نے اشارہ دیا ہے کہ امریکہ کو ایران کا ایک سولین جوہری پروگرام قابل قبول ہوگا، بشرطیکہ رہبر اعلیٰ علی خاممِنئی اپنے اس اعلانیہ دعوے کا ثبوت بہم پہنچائیں کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔

اُن کے بقول، یہ زبانی پیغام اُنہوں نےترک وزیر اعظم رجب طیب اردغان کی معرفت بھیجا تھا، جب ان کی سئیول میں دو گھنٹے طویل ملاقات ہوئی تھی اور مسٹر اوباما نے اُنہیں ایرانیوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت پر زور دیا تھا کہ اُنہیں ایک پُر امن تصفیہ قبول کرنا چاہئیے اور انہیں مذاکرات کو جو موقع دیا گیا ہے اُس سے فائدہ اُٹھانا چاہئیے۔

جہاں تک ایران کو اپنے یہاں یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دینے کا سوال ہے اس کا تصفیہ ان مذاکرات میں ہوگاجن کےبار ے میں کہا گیا ہے کہ وہ گیارہ اپریل کو شروع ہونگے۔گو جگہ کا تعیّن ابھی ہونا باقی ہےمسٹر اردغان جمعرات کو ایرانی لیڈر سے ملے تواُنہوں نے یہ پیغام ا نہیں پہنچا دیا ۔ بلکہ ، وہ صدر احمدی نژاد اور دوسرے اعلیٰ عہدہ داروں سے بھی ملے ۔

اگ نیٹیس کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ رابطے کےلئےاردغان کا وسیلہ استعمال کرنا اس بات کا ڈرامائی ثبوت ہے کہ صدر اوباما نے اس ترک لیڈر کے ساتھ قریبی راہ و رسم بڑھا لی ہے۔ اردغان کو، جو ایک اسلامی تنظیم کے لیڈر ہیں اکثر مسلمان جمہوریت پسند ا پنے لئے ایک مثال سمجھتے ہیں اور اُنہوں نے عرب ممالک میں جمہوری تحریکوں کے اُبھرنے کے بعد شا م اور دوسرے بُحرانوں سے نمٹنے میں امریکہ کے ایک کلیدی شراکت دار کا کردار ادا کیا ہے، ایسے میں جب ایران کی قیادت مذاکرات پر غور کر رہی ہے رواں تعزیرات کی وجہ سے ایران کواپنی تیل کی برآمدات میں گرمیوں کے وسط تک ایک تہائی کا گھاٹا ہوگا اور اگر یکم جولائی کے بعد چین اور یورپی یونین نے بھی ایرانی تیل کےٹینکروں کو بیمہ کی سہولت دینا بند کر دیں تو ایران کے لئے حالات مزید خراب ہونگے۔

امریکی عہدہ دار کہتے ہیں اگر ایران نے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تو ان تعزیرات کو اور بھی سخت کرنا آسان ہوگا۔

’ لاس اینجلس ٹائمز‘ کی ایک سُرخی ہے کہ قرآن میں کوئی ایسی آئت نہیں ہے جس میں عورتوں کے لئے کھیل کُود کی ممانعت ہو ۔ اس عنوان سے اخبار کی کارلا ہال بتاتی ہیں کہ اگر آپ اس خیال میں ہیں کہ سعودی عرب بتدریج اکیسویں یا بیسویں صدی میں داخل ہونے کی کوشش کررہا ہے تو یہ آپ کا خیال خام ہے، کیونکہ پچھلے ہفتے شہزادہ نیف ابن عبدالعزیز نے اعلان کیا تھا کہ سنہ 2012 کے اولمپک کھیلوں میں سعودی عرب کی خواتین کی نمائندگی ممکن ہے بشرطیکہ ایسا کرنا اسلامی قانون سے متّصادم نہ ہو ۔ لیکن بدھ کے روز ملک کے کھیلوں کے وزیر شہزادہ نواف فیصل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سرِ دست اولمپک یا کسی اور بین ا لاقوامی چیمپین شپ میں کوئی سعودی خواتیں نہیں بھیجی جارہی ۔

اخبار کہتا ہے کہ سعودی عرب عورتوں پر ظالمانہ پابندیاں لگانے کے لئے بدنام ہے ۔ وہاں خواتین کے لئے موٹر کار چلانا منع ہے ،اس سال کے لئے ہُیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں خواتین کی کوئی قومی ٹیم نہیں ہے ، اور اُن کے لئے ورزشی سہولتیں ناپید ہیں۔ اور جیسا کہ ایڈیٹوریل بورڈ نے حال ہی میں لکھا تھا خواتین کو سپورٹس سے محروم کرنے کا قرآن میں کوئی جواز نہیں، کیونکہ مسلمانوں کی غالب اکثریت والے دوسرے ملکوں نے اولمپک کھیلوں میں اپنی خواتین کو مقابلوں میں بھیجا ہے ۔ اگر سعودی عرب اولمپک روایات کا حصّہ بنا رہنا چاہتا ہے تو اُسے ملک میں مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے کھیل کود اور ورزش کی سہولتیں فراہم کر نی چاہیئں۔

’ یو ایس اے ٹوڈے ‘ کہتا ہے کہ ایک ملٹری بورڈ نےامریکی مرین کور کے سارجنٹ گیری سٹائن کو فیس بُک پر صدر اوباما پر تنقید کرنے کی پاداش میں برطرف کرنے کے لئے کہا ہے۔ امریکہ کی شہری آزادیوں کی انجمن اور ارکان کانگریس نے آزادی اظہار کے حق کی بنیاد پر سٹائن کی حمائت میں آواز بلند کی ہے۔

سٹائن کی بر طرفی کی تجویز اب منظوری کے لئے ایک جنرل کے پاس جائےگی اور اگراسے اس تجویز سے اتفاق نہ ہو ،تویہ معاملہ نیوی کے وزیر تک جا سکتاہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG