رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ایران کے جوہری پروگرام کا مقصدبم بنانے کے سوا کچھ نہیں: رپورٹ


امریکی اخبارات سے: ایران کے جوہری پروگرام کا مقصدبم بنانے کے سوا کچھ نہیں: رپورٹ
امریکی اخبارات سے: ایران کے جوہری پروگرام کا مقصدبم بنانے کے سوا کچھ نہیں: رپورٹ

امریکی اخبارات سے: زیادہ تشویش ناک بات یہ ہےکہ مزائل میں وارہیڈ نصب کرنے کے لئے کم از کم چودہ ڈیزائن ہیں: یو ایس اے ٹوڈے

ایران کے جوہری پروگرام پر جوہری توانائی کے بین ا لاقوامی ادارے کی تازہ رپورٹ کے بارے میں ’یُو ایس اے ٹُوڈے‘ اخبار کہتا ہے کہ اس میں اُن سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جن کا مقصد اِس کے سوا کُچھ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک جوہری بم بنایا جائے۔

زیادہ تشویش ناک بات یہ ہےکہ مزائل میں وارہیڈ نصب کرنے کے لئے کم از کم چودہ ڈیزائن ہیں۔

اس رپورٹ سے ایران کا یہ پرانا دعویٰ بالکل طشت از بام ہو جاتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام بنیادی طور پر توانائی پیدا کرنے کے لئے ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ رپورٹ ایک سنگین نوعیت کے خطرے کی نشان دہی تو کرتی ہے لیکن اس کی نہیں کہ خطرہ فوری ہے ۔ اس وجہ سے ایران کے خلاف حفظ ما تقدّم کے طور پر اقدام کرنے کی جو آوازیں حالیہ دنوں میں بلند ہوئی ہیں ، خاص طور پر اسرائیل کی طرف سے، اُن کی وجہ سے اِس قدر سنگین نتائج مرتّب ہو سکتے ہیں کہ اِس کا استعمال صرف اُسی صورت میں قابل ِقبول ہو سکتا ہے جب باقی تمام نُسخے آزمائے جا چُکے ہوں۔

اخبار نے جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی اس رپورٹ کے بار ے میں یہ بھی کہا ہے کہ اسے متعدّد ملکوں کی انٹیلی جینس معلومات اور ایران کے اندر کے ذرائع کی بنیاد پر مرتّب کیا گیا ہے اور اس ادارے کی یہ شہرت ہے ٴکہ اس کا تجزیہ مُحتاط ہوتا ہے۔ اور اخبار کہتاہے کہ اگر 2003 میں اس کے حاصل کردہ حقائق کا اعتبار کیا گیا ہوتا تو امریکہ وسیع پیمانے کی تباہی مچانے والے اُن ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی غرض سے عراق پر حملہ کرنےمیں جلد بازی نہ کرتا، جن کا حقیقت میں وجُود ہی نہیں تھا۔

اس ادارے کی ایرانی جوہری پروگرام پر تازہ رپورٹ پر ’نیو یارک پوسٹ‘ میں معروف ایران کے سرگرم سیاسی کارکُن ، امیر طاہری رقمطراز ہیں کہ اس سے ظاہر ہے کہ ایران بین ا لاقوامی قانون اور اس کے خلاف فوجی کاروائی کی دہمکی کو نظر انداز کرنے پر تلا ہوا ہے۔ تہران کے اس طرز عمل کے پیچھےخاص طور پر اوبامہ انتظامیہ کے ارادوں اور ضرورت پڑنے پر اُس کی ایران پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کی صلاحیت پر بُہت سے عوامل کار فرما ہیں ۔

ایرانی سرکاری ذرائع ابلاغ عرصے سے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ صدر اوبامہ نے ایران کے اعلیٰ پیشوا علی خامنئیّ کو دو خط بھیجے ہیں،جس کا امیر طاہری کے بقول، انہوں نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا۔

اخبار’ شکاگو ٹریبیوں‘ ایک ادارئے میں یورپی یونین اور امریکہ کو درپیش مسائل کا موازنہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ یورپ کا اونٹ جس کروٹ بیٹھے گا امریکہ کا بھی اُسی کروٹ بیٹھے گا۔ یورپی یونین مجموعی طور پر امریکی کا سب سے بڑا کاروباری ساجھے دار ہےاور یہ سوچنا حقیقت کے برعکس ہوگا کہ اگر بحر اوقیانوس کی ایک جانب انتشار ہوگا تو دوسری جانب پھل پُھول سکے گی۔ اگر ایک بڑا مالیاتی ادارہ ناکام ہو جاتا ہے یا کوئی خودمختار حکومت قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کا اثر اس کی سرحد پر یا نقشے پر یا کسی سمندر پر نہیں رُکے گا، لہٰذا امریکیوں کی کوشش یہ ہونی چاہئے ۔ کہ یورپ کے ملک کامیاب ہوں۔

زندگی کی مالیاتی حقییقت کے علاوہ ، اخبار کہتا ہے کہ یورپ کے قرض کے بُحران سے اُس تکلیف دہ صورت حال کے پیش نظر کا اندازہ ہوتا ہے جس کا امریکیوں کو اُس صورت میں سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر امریکی لیڈر قومی قرض پر روک لگانے میں ناکام ہو گئے، قومی قرض کی مجموعی رقم کسی بھی دن 150 کھرب ڈالر کی حد کو چُھونے والی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ جس سوپر کمیٹی کے ذمّے مالی مسایل کا حل ہے اس کے پاس صرف دو ہفتے ہیں۔اس نے ابھی تک اس کام میں ذرّہ بھر پیش رفت نہیں کی ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ کمیٹی اسوقت ٹیکسوں کی پالیسی میں اُلجھی ہوئی ہے ۔ اصل مسلہ اگلے دس سال میں بجٹ کے خسارے میں کم از کم 12 کھرب ڈالر کی کمی لانا ہے ۔ اخبار کے خیال میں 12 کھرب ڈالر کی یہ رقم ملک کے بھاری خساروں اور قرضوں کے مقابلے میں کُچھ بھی نہیں ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ کس قدر وحشت کا مقام ہوگا اگر کانگریس سے اتنا بھی نہ بن پڑے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG