رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: موسمیاتی تبدیلیوں کے خدشات


اخبار نے یاد دلایا ہے کہ سنہ 2009 میں صدر اوباما نے کوپن ہیگن سربراہ اجلاس میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو سنہ 2020 تک سنہ2005 کی سطح سے17 فیصد کی حد تک کم کریں گے۔

انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون

وقت آگیا ہے جب موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنا ضروری ہو گیا ہے۔ اس عنوان سے انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون ایک ادارئے میں یاد دلاتا ہے ، کہ صدر اوباما نے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں اور اس سے نمٹنے کے لئے طویل المیعاد اقدامات کرنے پر مکالمہ شروع کریں گے۔

اخبار کہتا کسی شخص کو اس مسئلے سے نمٹنے کی اہمیت کا اتنا ادراک نہیں ہے جتنا کہ صدر اوباما کو۔ سوال صرف یہ ہے کہ آیا وہ اپنے عہدے کے اختیارات کو اس کے حل کے لئے بروئے کار لائیں گے۔ اور اخبار نے ایسے اختیارات کی نشان دہی کی ہے ۔ جن کے لئے کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن جن کی مدد سے کاربن کے اخراج میں تخفیف کرنے اور اس میں امریکہ کی عالمی قیادت دوبارہ قائم کی جاسکتی ہے۔

اور اس میں قدرتی گیس کا اہم کردار ہے۔ جس سے امریکہ مالا مال ہے۔ اور جس سے کوئلے کے مقابلے میں کاربن کا اخراج آدھا ہوتا ہے۔ اور اسے پینے کے پانی یا ماحولیات کو نُقصان پہنچائے بغیر نکالا جا سکتا ہے۔اسی طرح ہوا اور شمسی توانائی کے متبادل ذرائع میں بھی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے ، اور جدید جوہری بجلی گھروں اور ایسی تجرباتی ٹیکنالوجیز کے شُعبے میں بنیادی تحقیقی کام شروع کیا جا سکتا ہے ۔ جن کی مدد سے معیشت میں کارب کا اخراج کم سے کم ہو۔

اخبار نے یاد دلایا ہے کہ سنہ 2009 میں صدر اوباما نے کوپن ہیگن سربراہ اجلاس میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو سنہ 2020 تک سنہ2005 کی سطح سے17 فیصد کی حد تک کم کریں گے۔ اس مقصد کا حصول کانگریس کے انکار کے بعدناممکن لگ رہا تھا لیکن سستے قدرتی گیس کے استعمال ایندھن کے نئے معیار مقرر کرنے ، سیمابی ضوابط اور دوسرے عوامل کی بدولت یہ اخراج سنہ 2020 تک دس فی صد تک کم ہو سکتا ہے۔ لیکن اخبار کا اندازہ ہے کہ 17 فی صد کی کمی لانا بھی صدر اوباما کے ہاتھ ہیں ہے ، بشرطیکہ وہ اپنے ذرائع کو بروئے کار لائیں۔

نیویارک ٹائمز

مصر کے عوام نے ریفرنڈم میں ایک نئے آئین کی منطوری دے دی ہے۔ اس پر نیو یارک ٹائمز ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا ۔ کہ نئے آئین کی بدولت مصر کے عوام ملک کے مستقبل کے بارے میں ایک متفقہ نظرئے پر متحد ہو جاتے اور جمہوری عبوری دور سے گُزرنے کے لئے مضبوط بنیاد فراہم ہو جاتی ۔ لیکن جیسا کہ اخبار نے کہا ہے اسلام پسندوں کی حمایت سےبنایا گیا جوآئین اس ہفتے نافذ ہوا ہے ، اُس نے عوام کے باہمی اختلافات میں اضافہ کر دیا ہے۔ اور اسلام پسند حلقے سےباہرلوگ، محسوس کر رہے ہیں کہ اُن کا ووٹ اُن سے چھن گیاہے۔وہ مشتعل ہیں اور اس دستاویز میں ترمیم کرانے پر تُلے ہوئے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ اگر ایک پائیدار حل مقصود ہے تو صدر محمد موسی کو مصر کو اس افترا تفری سے باہر نکالنے میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا ۔ جس کے لئے اُن پر بھی کافی ذمہ داری آتی ہے۔ اُن کو مصالحت کے لئے بُہت کُچھ کرنا پڑے گا۔ اورآئین کے اُن حصّوں میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ جن پر بُہت سے مصریوں کو اعتراض ہے۔بدھ کی تقریر میں اُ ن کا لہجہ مصالحانہ تھا ۔لیکن اُنہوں نے کسی رعائت کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اخبار کی رائے میں مخالف قوتوں کو بھی ، بشمول سیکیولر ، لبرل اور قبطی عناصرکے، اہم کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ اگر وہ انتظامیہ میں زیادہ دخل چاہتی ہے ، تو پھر اسے ذمہ دار حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اپنے آپ کو منظم اور ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے اور دو ماہ کے اند پارلیمنٹ کے ایوان زیرین کے لئے ہونے والے انتخابات کے لئے اُمید وار کھڑے کرنے چاہیئں۔

نئے آئین پر ریفرنڈم میں62 فیصد ووٹروں نے اس کے حق میں رائے دی تھی۔ لیکن اخبار کہتا ہےیہ نہ بُھولنا چاہئے، کہ اس ریفرنڈم میں مصر کے پانچ کروڑ بیس لاکھ ووٹروں میں سےصرف 32اعشاریہ9 فیصد نے شرکت کی تھی۔

امریکی محکمہء خارجہ نے مسٹر مرسی کو مشورہ دیا ہے کہ وُہ مصالحت کا راستہ اختیار کریں ۔ مصر کو استحکام کی ضرورت ہے۔ سنہ 2010 کے بعد سے اُس کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 36 ارب ڈالر سے گر کر 15 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اور ایسے آثار ہیں کہ بعض مصری ڈالر وں کی پونجی جمع کر رہے ہیں۔

اخبار کہتا ہے ۔ کہ مصری ، خانہ جنگی جاری رکھ سکتے ہیں اور اپنی معیشت کو تباہی کی طرف جاتے دیکھ سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں وُہ متحد ہو کر زیادہ تعمیری مستقبل بنا سکتے ہیں۔ انتخاب اُن کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
XS
SM
MD
LG