رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: شام میں انسانیت سوز واقعات


سینیٹر جان مکین نے امریکی سینیٹ سے اپیل کی تھی کہ شامیوں کی امداد کے لئے اسی قسم کا اتّحاد وضع کیا جائے جیسے لبیا کے ڈکٹیٹر معمّر قذافی کا تختہ اُلٹنے کے لئے قائم کیا گیا تھا

اخبار’ یُو ایس اے ٹُوڈے ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ شام میں انسانیت سوز واقعات میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے اور صدر بشاالاسد کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم ساڑھے سات ہزار تک پہنچ گئی ہے اور یہ تعداد بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ اذیّت رسانی کی بےشمار وارداتیں ہو رہی ہیں ، جن کی تصویریں یُو ٹیوب پر نظر آنے لگی ہیں۔اُن میں بچُوں کی مسخ شُدہ لاشیں بھی ہیں جو ستم زدہ شامی بیرونی امداد کی توقع میں ڈال رہے ہیں ۔

سینیٹ کی سماعتوں کے دوران سینیٹر جان مکین نے اپیل کی تھے کہ شامیوں کی امداد کے لئے اُسی قسم کا اتّحاد وضع کیا جائے جیسے لبیا کے ڈکٹیٹر معمّر قذافی کا تختہ اُلٹنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ خیال نیک ہے ۔ لیکن، شامی پہاڑیوں پر نہ تو کوئی حملہ ہونے والا ہے اور نہ اسد کی فوجوں پر بم یا مزائیل گرنے والے ہیں ۔ ان فوجوں نےاس ہفتے مزید دو شہروں سے محصور باغیوں کو کھدیڑ دیا ہے اور صدر اوبامہ اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیما ران نے خبر دار کیا ہے کہ اگر جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی کاروائی کی گئی تواس کے نتیجے میں مزید خون خرابہ ہوگا۔

وزیر دفاع لیون پینیٹا نے ایسا اتّحاد قائم کرنے کی راہ میں حائل دُشواریاں بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ قذافی کے مقابلے میں بشارالاسد کافضائی دفاعی نظام پانچ گُنا زیادہ طاقتور ہے جب کہ شام کا کُل رقبہ لیبیا کے پانچویں حصے کے برابرہے۔ پھرآبادی بیشتر شہروں میں مرتکز ہے اور اُس پر حملہ کرنے والی فوج بھی وُہیں ہے۔ اگر اُن پر امریکی بم گرائے گئے تو نتیجہ اندوہناک ہی ہوگا۔

اخبار کہتا ہے کہ لبیا کی طرح کے حملے کے لئے عربوں کی شرکت بھی ضروری ہوگی۔ لیکن عرب لیگ نے لبیا کی طرح اس کی حامی نہیں بھری ہے۔ پھر روس اور چین دو بار شام کے بارے میں قراردادوں کو ویٹو کر چُکے ہیں۔ جب کہ روس وسط مشرق میں اپنے اس اتّحادی کو تحفّظ فراہم کرنے پر تُلا ہوا ہے اندریں حالات مناسب یہی رہے گا کہ اُن قُوٹُوں کا ساتھ دیا جائے جوخطرہ مول لئے بغیر اسد کو ہٹا سکیں۔اور یہ سفارتی اقدامات ہی سے ممکن ہے ۔ اقتصادی تعزیرات بھی اس کے حصول میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں

’بالٹی مور سن‘ نے موسمیاتی تغیّرات کے بارے میں بُدھ کو جاری ہونے والی تازہ ترین رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مین سے لےکر خلیج میکسکو کے امریکی ساحلی علاقے میں رہنے والے 50 لاکھ افراد کے لئے بڑھتی ہوئی عالمی حرارت کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ اب پہلے کے مقابلے میں دوگنا بڑھ گیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس کے نتیجے میں سمندروں کی سطح بڑھنے اور زیادہ بھاری طوفانوں کی وجہ سے جو سیلاب آئیں گے اُن کے خلاف جنوبی فلوریڈا کے علاقے کو تحفّظ فراہم کرنا شائد ناممکن ہو جائے گا۔اور اس کی زد میں جو اثاثے آئیں گے ان کی مالیت 30 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ کیلی فورنیا میں بعض ایسے علاقے ہیں ، جہاں پہلے کبھی سیلاب نہیں آیاہے ، لیکن جو اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔ موسمیات کے ماہر سایئنس دانوں کا ماننا ہے کہ امریکہ کی ایک دوسرے سے ملی ہوئی 48 ریاستوں کے نشیبی علاقوں میں لوگ تجارتی ادارے اور اقتصادی ڈھانچے بڑھتے ہوئے سطح سمندر کی زد میں ہیں۔ یہ سطح 1880 ءسے اب تک آٹھ اِنچ بڑھ چُکی ہے ۔ رواں صدی کے دوران سطح سمندر2 فُٹ سے لے کر 7 فُٹ تک بڑھ جانے کی پیشگوئی کی گئی ہے ۔

ارتقا کی تھیوری کے خالق، چارلز ڈاروِن کی دو صد سالہ سالگرہ کے موقعے پر’ ڈٹرائیٹ نُیوز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اس سلسلے میں ایک عوامی جائزے کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ اُن کے مطابق39 فی صد افراد کا کہنا تھا کہ وُہ ارتقاء کے نظرئے کو مانتے ہیں۔ جب کہ 25 فی صد نے اس تھیوری کو یکسر ردّ کر دیا ۔

اخبار کہتا ہے کہ ڈاروِن کی دلائیل ماننے میں امریکیوں کے اندر جو ہچکچاہٹ ہے وہ اس بات کے پیش نظر ذرا زیادہ تشویش کی بات ہے کہ ماہرینِ حیا تیات کی اب تک کی تمام دریافتوں سے ڈارون کی تھیوری کی تصدیق ہوتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ جو لوگ کلیسا جاتے ہیں اُن میں سے 24فی صد ایسے ہیں جو ارتقا کے نظریے کو مانتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ کبھی کبھار ہی کلیسا جاتے ہیں، اُن میں ایسے افراد کا تناسب 55 فی صد ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG