رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ماحول کومحفوظ بنانے کی صدر کی پالیسیوں کا دفاع


امریکی اخبارات سے: ماحول کومحفوظ بنانے کی صدر کی پالیسیوں کا دفاع
امریکی اخبارات سے: ماحول کومحفوظ بنانے کی صدر کی پالیسیوں کا دفاع

اخبار’نیو یارک پوسٹ‘ لکھتا ہے کہ اگر ہم خلیج ِ میکسیکو ،الاسکا یا اپنے تیل کے محفوظ ذرائع کو ہی بروئے کار لانا شروع کر دیں ،تو اُس سے نہ صرف ہزاروں روزگار پیداہوں گے بلکہ ’گرین ٹکنالوجی‘ پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کےلیے رقم کا بند بست بھی ہو سکتا ہے

اخبار’ نیو یارک پوسٹ ‘نے اپنے ایک اداریے میں صدر اوباما کی جانب سے سولر پینل بنانےوالی کمپنی Solyndra کو دیے جانے والے 535 ملین ڈالر کے قرضے پر ، جو بعد میں دیوالیہ ہو گئی، کچھ لوگوں کی برہمی کو موضوع بناتے ہوئے صدر کے اقدام کا دفاع کیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ لوگوں کویہ سمجھنا چاہیئے کہ صدر نے یہ سب کچھ ماحول کو بچانے کے لیے کیا تھا، کیوں کہ جب تک ہم دوسرے سیاروں تک نہیں پہنچتے ہمارے پاس یہ ہی واحد ماحول ہے اور اسے محفوظ بنانے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کےلیے کہ ہمیں کلین انرجی پر سرمایہ کاری کی واقعی ضرورت ہے ۔اورگرین ٹکنالوجیزاور گرین آئیڈیاز پر کام کرنے والی سولنڈرا جیسی کمپنیوںپر سرمایہ کاری یقیناً ایک دن بہت قابل قدرنتائج سامنے لا سکتی ہے۔

آگےچل کر اخبار لکھتا ہے کہ امریکی سر زمین ایسے قابل قدر قدرتی وسائل سےمالا مال ہے جن کی مدد سے ہم ان کمپنیوں پر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اور ان میں سے ایک ہے ہمارا تیل۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگر ہم خلیج ِمیکسیکو ،الاسکا یا ا اپنے تیل کے محفوظ ذرائع کو ہی بروئے کار لانا شروع کر دیں تو اِس سے نہ صرف ہزاروں روزگار پیداہوں گے، بلکہ گرین ٹکنالوجی پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کےلیے رقم کا بند بست بھی ہو سکتا ہے ۔

اِس لیے، اخبار لکھتاہے کہ اگرچہ تیل کی ڈرلنگ سے عارضی طورپر کچھ آلودگی پیدا ہو سکتی ہے لیکن ڈرل کیے جانےوالے تیل کی رقم سے ہم Solyndra جیسی سینکڑوں کمپنیوں کو فنڈز فراہم کر سکیں گے، اور اگر ان میں سے چند ایک دیوالیہ نہ ہوئیں تووہ یقیناً ہمارے لیے اتنی گرین ٹکنالوجی کو بند بست ضرور کر دیں گی جو ہمیشہ کے لیے ہمارے ماحول کو شفاف رکھنے کی راہ فراہم کرے گی۔ اِس لیے، اخبار لکھتا ہے کہ انسانی زندگی کی بقا کےلیے پہلا قدم ہے تیل کے لیے مزید ڈرلنگ۔

’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے امریکی تعلیمی نظام میں اصلاحات کےلیے اسٹیو جابز کی طرز کےتعلیمی ماڈل کی حمایت میں ایک اداریہ لکھا ہے ۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس وقت امریکی اسکولوں کے ایسے گریجوایٹس کی تعداد میں دن بدن کمی ہورہی ہے جو دنیا کی بہترین ملازمتوں کے لیے درکار ہنر رکھتے ہیں ۔ ہر سال دس لاکھ سے زیادہ امریکی طالبعلم ہائی اسکول سے ڈراپ ہو جاتے ہیں ۔ اور مڈل اسکول کے طالبعلموں کی اکثریت بھی اپنی بھر پور صلاحیتوں کو استعمال نہیں کر پارہی ۔ جو اس لیے ایک غیر منصفانہ اور غیر امریکی صورتحال ہے کیوں کہ ہمارے پاس اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے ٹکنالوجی موجود ہے ۔

اخبار لکھتا ہے کہ ہمارے بچے اسٹیو جابز کی دنیا میں پل بڑھ رہے ہیں وہ نئی ٹکنالوجی کو زیادہ تیزی سے اپنا نے کے خواہشمند ہیں کلاس روم سے باہر وہ اپنے پڑھنے ، موسیقی سننے یا شاپنگ کرنے وغیرہ کےلیے ہر قسم کی نئی ٹکنالوجی سے مستفید ہوتے ہیں لیکن انہیں اسکول میں جدید ترین ٹکنالوجی کی سہولیات نہیں ملتیں جو اُن کےلیے پریشان کن ہوتی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ جس طرح آئی پوڈ نے میوزک انڈسٹری کو اپنے صارفین کے مطابق ڈھالنےپر مجبور کیا تھا، اسی طرح ہم ٹکنالوجی کی مدد سے تعلیمی نظام کو طالبعلموں کی انفرادی ضروریات پوری کرنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔

اخبار لکھتا ہے کہ جدید ٹکنالوجیکل ایجادات کو کلاس رومز میں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے سے نہ صرف یہ کہ طالبعلم زیادہ تفریحی انداز میں ، اور زیادہ تیزی سے اور زیادہ تخلیقی انداز میں سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کے مشکل تصورات اور اصولوں کو سمجھ سکیں گے بلکہ نصاب کی کتابوں پر خرچ ہونے والی رقم کی بھی بچت ہو سکے گی جو شائع ہونے کے فوراً بعد ہی بیک ڈیٹڈ ہو جاتی ہیں جب کہ ڈیجیٹل ٹیکسٹس اپ ڈیٹ کیے جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح، ٹیچرز آن لائن ٹکنالوجی کے استعمال سے طالبعلموں کو انفرادی انسٹرکشنز دینےکے ساتھ ساتھ ان کےساتھ ایک قریبی اور زیادہ انفرادی تعلق قائم کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں کلاس روم میں تعلیمی کارکردگی مجموعی طو ر پر بہتر ہو سکتی ۔

تاہم، اخبار لکھتا ہے کہ نجی سیکٹر ٹکنالوجی کو تعلیمی نظام کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس وقت تک سرمایہ کاری نہیں کرے گا جب تک یہ سوال واضح نہ ہو جاتا کہ طالبعلموں کو کس مضمون میں کس گریڈ تک کیا کچھ سیکھنے کے قابل ہونا چاہیے۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکہ میں گزشتہ چند برسوں میں چالیس سے زیادہ ریاستوں میں لیڈر اور ماہرین تعلیم اس بارے میں گفتگو کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں کہ طالبعلموں کو ریاضی اور انگلش میں کس گریڈ تک کیا کچھ جاننے کے قابل ہونا چاہیئے ۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت امریکی طالبعلموں کو صرف اپنے ہم جماعتوں سے ہی انہیں شنگھائی ، لیما اور پراگ یا دوسرے ملکوں کے اپنے ہم عصر بچوں سے بھی مسابقت کرنی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ اسٹیو جابز اِن مسابقتی مارکیٹوں کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے ۔اس نئی صدی میں ہمیں تعلیمی نظام میں بھی ٹکنالوجی کےا ستعمال کا وہی انداز اپنانا چاہیئے جسے اسٹیو جابز نے ہراُس صنعت میں استعمال کیا تھا جہاں اس نے قدم رکھا تھا۔

اخبار’ ہیوسٹن کرنیکل‘ نے اپنے ادارتی صفحے پر چھپنے والے ایک مضمون میں امریکہ میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک ایسی پالیسی کی حمایت کو موضوع بنایا ہے جس میں شادی شدہ جوڑے اکٹھے رہ کر اپنے بچوں کی پرورش کریں ۔اخبار امریکہ میں خاندانوں کے ٹوٹنےاور غربت کے درمیان تعلق کے ضمن میں گزشتہ ہفتے ایک ری پبلکن ڈیبیٹ میں پنسلوینیا کے ایک سابق سینیٹر رک سینٹورم کی جانب سے پیش کیے گئےاس موقف کی حمایت کرتا ہے کہ ٹوٹے ہوئے خاندانوں کے ساتھ کوئی معاشرہ خوشحال نہیں ہو سکتا۔

اخبار سینیٹر سینٹورم کے موقف کی حمایت میں کولمبیا یونیورسٹی کی اس ریسرچ کا حوالہ دیتا ہے جس کے مطابق گزشتہ بارہ ماہ میں پانچ فیصد شادی شدہ جوڑوں کوکچھ مراحل میں غربت کا سامنا ہوا جب کہ ایسے گھرانوں میں جہاں بچوں کی ذمہ داری والد یا والدہ میں سے کسی ایک نے اٹھا رکھی تھی یہ شرح 28٫8 فیصد تھی اور اخبار لکھتا ہے کہ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔

اخبارلکھتا ہے کہ صرف ایک سیاست دان جو مسٹر سینٹورم کی بات سے متفق ہیں وہ ہیں براک اوباما جنہوں نے گزشتہ سال فادرز ڈے پر کہا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ جو بچے باپ کے بغیر پرورش پاتے ہیں ان میں غربت میں زندگی گزارنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ان میں اسکول سے ڈراپ ہونے ، جیلوں میں جانے منشیات کے عادی ہونے اور کم عمری میں ماں یا باپ بن جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔اور باپ کے بغیر پرورش پانے والے بچوں کی زندگی میں ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے کوئی حکومت پر نہیں کر سکتی ۔

لیکن اخبار تجویز دیتا ہے کہ حکومت بہر طور ایسے متعدد کام کر سکتی ہے اور ایسی تعلیمی پالیسیاں بنا سکتی ہے جن سے غریب نوجوانوں کی مالی حالت بہتر ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے خاندان کی تشکیل کر سکتے ہیں ،اپنے گھرانوں کی زمہ داریاں اٹھا سکتے ، اسے ٹوٹنے سے بچا سکتے ہیں، اور نہ صرف خود غربت سے دور رہ سکتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو نفسیاتی اور مالی طور پر مستحکم گھریلو اور معاشرتی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں اور اس طرح حکومت کو غربت سے پاک اور ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل میں مدد دے سکتے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ اس کا مطلب ان پر عزم ماؤں کو جو تنہا اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہیں یہ جتانا مقصود نہیں ہے کہ صرف وہی گھرانےمالی طور پر خوشحال ہو سکتے ہیں جس میں ماں اور باپ دونوں موجود ہوں ۔ بلکہ صرف یہ جتانا مقصود ہے کہ اس وقت غربت کےخاتمے کے لیے خاندانوں کو مضبوط بنانےکے عملی طریقوں پر توجہ مرکوز کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG