رسائی کے لنکس

برطانیہ میں امن و امان کا مسئلہ: امریکی ماہر کو سرکاری مشیر بننے کی پیش کش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یہ بتاتےہوئے، اخبار بوسٹن گلوب نے کہا ہے کہ مسٹر بریٹن امریکہ کے تین بڑے شہروں بوسٹن، نیو یارک شہراور لاس اینجلس کے پولیس محکموں کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ ہر شہر میں اُنھوں نے جرائم اور غنڈوں پر قابو پانے کی ایسی حکمتِ عملی پر عمل کیا جِس کی بنیاد لوگوں کے سر پھوڑنا نہیں تھا بلکہ یہ کہ اُنھوں نے مقامی برادریوں کو سمجھنے کے لیے محنت کی اورنسلی اور فرقہ وارانہ خطوط سے بالا تر ہو کر عوام کے ساتھ تعلقات استوار کیے

لندن اور کئی دوسرے شہروں میں حالیہ فسادات کے بعد برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے امن و امان قائم کرنے کے ایک امریکی ماہر Bill Brattonکو دعوت دی ہے کہ وہ اُن کے مشیر کے طور پر کام کریں۔

’بوسٹن گلوب‘ نے ایک اداریے میں مسٹر کیمرون کے اِس فیصلے کو مستحسن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسٹر بریٹن امریکہ کے تین بڑے شہروں کے پولیس کے محکموں کے سربراہ رہ چکے ہیں، یعنی بوسٹن، نیو یارک شہر اور لاس اینجلس جِن میں سے ہر شہر میں اُنھوں نے جرائم اور غنڈوں پر قابو پانے کی ایسی حکمتِ عملی پر عمل کیا جس کی بنیاد لوگوں کے سر پھوڑنا نہیں تھا بلکہ یہ کہ اُنھوں نے مقامی برادریوں کو سمجھنے کے لیے محنت کی اور اُنھوں نے نسلی اور فرقہ وارانہ خطوط سے بالا تر ہو کر عوام کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔

اخبار کہتا ہے کہ کمان کرنے کی ان صلاحیتوں کو ایک شہر سے درسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کیا جاسکتا ہے۔

’بوسٹن گلوب‘ کہتا ہے کہ لندن کے فسادات نے برطانیہ کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔

اگلے سال، لندن گرمائی اولمپکس کھیلوں کی میزبانی کررہا ہے اور بین الاقوامی برادری کو اِس بات پر تشویش ہوگی کہ برطانیہ کس طرح امن و امان کی فضا بحال کرتا ہے۔

’ڈلس مارننگ نیوز‘ نے لندن اور دوسرے برطانوی شہروں کے حالیہ فسادات پر ایک اداریے میں کہا ہے کہ اِن فسادات سے یہ بات واضح ہوگئ ہے کہ اُن سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کے روایتی طور طریقے کافی نہیں ہوں گے۔ چناچہ، برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے سابق امریکی پولیس کمشنر بِل بریٹن سے یہ مشورہ کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے کہ اِن طور طریقوں کو کیونکر زیادہ سخت بنایا جاسکتا ہے، تاکہ برطانوی پولیس کے لیے عوام کے دلوں میں زیادہ احترام بڑھے۔

اخبار کہتا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کی یہ تشخیص بالکل صحیح ہے کہ اِس مسئلے کی اصل جڑ یہ ہے کہ برطانیہ کے اخلاقی معیار روبہ زوال ہیں۔ والدین کو اُن امور میں شامل نہیں کیا جاتا اورنو جوانوں کے مجرمانہ طررِ عمل کی اصل وجوہات سے نمٹنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔

اخبار کہتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ کے شہروں کی بدامنی میں ایک عنصر سامنے آیا ہے، مثلاً سیل فون اور سوشل نیٹ ورکنگ ان مشترکہ چیلنجز کی وجہ سے دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور دونوں کو چاہیئے کہ وہ مسائل کو حل کرنے کے مکالمے کو اور وسیع کریں۔

امریکی ری پبلیکن پارٹی کی طرف سے اگلے سال کے صدارتی انخابات کے لیے نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں تازہ ترین اضافہ ٹیکسس کے گورنر رِک پیری کا ہوا ہے۔ اُنھوں نے آتے کے ساتھ ہی جو دھمکی آمیز شعلہ بیانیاں کی ہیں اُس پر اخبارات نے کڑی تنقید کی ہے۔ خاص طور پر اُن کا امریکی فیڈرل رِزرو کے چیرمن بین برننکی کے خلاف بیان جنھیں ایک ری پبلیکن صدر نے اِس عہدہ پر فائز کیا تھا۔

نیویارک کے روزنامے ’ڈیلی نیوز‘ کے مطابق ایک قدامت پسند مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے رِک پیری نے فیڈرل رِزور کے چیرمین کو دھمکی دی تھی کہ اگر اُنھوں نے اب سے انتخابات تک مزید نوٹ چھاپنے کی جسارت کی تو اِس کا مطلب امریکہ کی تاریخ کے اس لمحے میں تقریباً دھوکہ دہی بلکہ بغاوت کے برابر ہوگا۔

اخبار کہتا ہے کہ اِس کا مطلب یہی نکلے گا کہ اگر اُنھوں نے مزید نوٹ چھاپے تو اُنھیں اُلٹا لٹکا دیا جائے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ ایک ایسے شخص کی جانب سے جو دنیا کی سب سے طاقتور قوم کا صدر بننا چاہتا ہے یہ ایک ذمہ دارانہ بیان نہیں ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب عالمی منڈیاں امریکہ کی سیاسی قیادت میں اعتماد کے بحران کی وجہ سے نقصان اٹھا رہی ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہےکہ ریپبلیکن پارٹی کے ایک پالیسی ساز Karl Roveتک کو بھی یہ کہنا پڑ اہے کہ رِک پیری کا یہ بیان نہایت افسوس ناک ہے اور یہ کہ گورنر پیری کو یہ تاثر مٹانا پڑے گا کہ وہ ٹیکسس کے ایک Cow boyہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG