رسائی کے لنکس

امریکہ یمنی القاعدہ شاخ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھتا ہے: وال اسٹریٹ جرنل


امریکہ یمنی القاعدہ شاخ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھتا ہے: وال اسٹریٹ جرنل
امریکہ یمنی القاعدہ شاخ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھتا ہے: وال اسٹریٹ جرنل

اخبار نے عہدے داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ سی آئی اے کے عزائم ہیں کہ یمن میں مسلح ڈرون پروگرام شروع کیا جائے

’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق القاعدہ کی دہشت گرد تنظیم اپنے نئے لیڈر ایمن الظواہری کی قیادت میں اپنی حکمتِ عملی میں جو تبدیلی کر رہی ہے اُس کےتحت سمندرپار ملکوں میں امریکی اورمغربی اہداف پر حملے کرنے کو ترجیح دی جائےگی، جہاں امریکہ کی سرزمین کے مقابلے میں کسی سازش کی تکمیل زیادہ آسان ہے۔

اخبار کہتا ہےکہ مسٹرظواہری کی حملہ کرنے کی وسیع تر حکمتِ عملی اُن مقاصد سے زیادہ ہم آہنگ ہیں جو پاکستان میں القاعدہ کے لیڈروں اور خاص طور پر یمن میں اس کے اتحادیوں نے قائم کر رکھی ہیں۔

یمن میں القاعدہ کی شاخ کا طریقِ کار یہ ہے کہ کسی بھی قسم کا ممکنہ حملہ کیا جائے خواہ اِس سے کوئی شاندار نتیجہ برآمد ہو یا نہ ہو۔

چناچہ، امریکہ کو شاید اپنی انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی کو بدلنا پڑے گا، خاص طور پر اگر القاعدہ کی یمن اور شمالی افریقہ کی شاخیں یورپ اور افریقہ میں امریکی اور مغربی اہداف کو پھر نشانہ بنائیں جیسا کہ 1998ء میں اُنھوں نے کینیا اور تنزانیہ میں کیا تھا اور جِن کے لیے ایمن الظواہری کے خلاف فردِ جرم عائد ہو چکی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ القاعدہ کے لیے حکمتِ عملی میں یہ تبدیلی ایسے وقت آرہی ہے جب القاعدہ اور یمن میں اُس کے اتحادی صومالیہ کی الشباب عسکریت پسند تنظیم کے ساتھ اِس نیت سے روابط مضبوط کر رہی ہے تاکہ صومالیہ والوں کو افریقہ میں امریکی اہداف کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اُکسایا جائے۔اخبار کے بقول، امریکہ یمنی القاعدہ شاخ کو سب سے زیادہ خطرناک حصہ سمجھتا ہے۔

اخبار نے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ سی آئی اے کے عزائم ہیں کہ یمن میں مسلح ڈرون پروگرام شروع کیا جائے۔

’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے ایک اداریے بجلی کے قمقمے کے بارے میں لکھا ہے اور اُسے جدید کم توانائی استعمال کرنے والے قمقمے سے بدلنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سو سال پرانے بجلی کے بلب جو ٹامس ایلوا ایڈیسن نے بنائے تھے، توانائی کے استعمال میں کفایت کے معیاروں پر پورے نہیں اُترتے کیونکہ اُن سے حرارت زیادہ پیدا ہوتی ہے اور روشنی کم۔ چناچہ، اگلے سال سے امریکہ میں 100واٹ کا روایتی بلب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوگا اور اگلے دو سال میں کم واٹیج کے بلب رواج پائیں گے۔

کیلی فورنیا کی ریاست میں یہ عمل رواں سال ہی سے شروع ہوگیا ہے۔

جب بلب بدلنے کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگا تو صارفین کو 12ارب ڈالر کی بچت ہوگی اور کیلی فورنیا کے اوسط گھر کی بچت 124ڈالر سالانہ ہوگی۔

اخبار کہتا ہے کہ بلب بدلنے کے اس قانون کے تحت امریکہ میں توانائی کی جو بچت ہوگی وہ کیلی فورنیا کی پوری ریاست میں خرچ ہونے والی توانائی کے ایک تہائی سے بھی زیادہ ہوگی۔

امریکہ میں اِس وقت قومی قرضے کی حد بڑھانے پر ڈیموکریٹوں اور ری پبلیکنوں کے مابین جو رسہ کشی جاری ہے اُس پر اخبار ’آرینج کاؤنٹی رجسٹر‘ کہتا ہے کہ دونوں فریق طبقاتی جنگ کا پرانہ کھیل کھیل رہے ہیں، یعنی دولتمندوں کو ہدف بنانا۔ یہ وہ پرانا کھیل ہے جو اگر ری پبلیکن کھیلیں تو ہار جاتے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ صدر اوباما جب ارب پتی لوگوں پر ٹیکس لگانے کی بات کرتے ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے، لیکن وہ ہر اُس گھرانے پر ٹیکس لگانا چاہتے ہیں جس کی آمدنی ڈھائی لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ ہو۔

اخبار کا خیال ہے کہ اِس حد تک ٹیکس لگانے سے چھوٹے کاروباری اداروں میں سے 48فی صد پر منفی اثر پڑے گا۔

’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے تخمینے کے مطابق ڈھائی لاکھ سے زائد آمدنی پر اگر ٹیکس لگا بھی دیا جائے تو اس سے دس سال میں کل 700ارب ڈالر کی آمدنی ہوگی، جب کہ موجودہ خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا تین فی صد ہے۔ لہٰذا، 2015ء تک یہ تین فی صد پورا کرنے کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر آمدنی پر ٹیکس لگانے پر اکتفا کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ٹیکس کی اونچی شرح 75فی صد سے زیادہ ہوگی جو مضحکہ خیز بات ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ قومی قرض کی حد بڑھانے پر یہ بحث اخراجات کو کم کرنے پر مرکوز ہونی چاہیئے جِس کی وجہ سے قرض کا بحران پیدا ہوا ہے اور یہ کہ ٹیکس بڑھانے کی بات نہیں کرنی چاہیئے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG