رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے:عراق کے حالات


اقوام متحدہ کے اعدادوشمار سے ظاہر ہے تشدد کی وارداتیں برابر ہو رہی ہے، جن کی شدّت پچھلے تین سال کے دوران ایک ہی سطح پر رہی ہے۔ لیکن سیکیورٹی کی صورت حال کم و بیش مستحکم ہونے کےباوجود حالیہ مہینوں کے دوران سیاسی صورت حال میں ابتری آئی ہے

عراق میں خوفناک دھماکوں اورحملوں پر’نیویارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ اِس قسم کی مسلسل وارداتیں ثابت کرتی ہیں کہ ملک کے اندر ایک منظّم بغاوت سرگرم ہے۔

جمعرات کو اِن دھماکوں اور حملوں نےعراق کو ہلا کر رکھ دیا جب بغداد اور شمالی کر کوک کے شہر میں میں سب سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ۔ مجموعی طور پر تین درجن افراد ہلاک ہوئے جب کہ ایک سو سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلاء کے چار ماہ بعد اور جمعرات کے ان حملوں کے باوجود ملک کے سیکیورٹی کے حالات میں اتنی ابتری نہیں آئی ہے، جیسا کہ تجزیہ کاروں کو اندیشہ تھا۔

لیکن، جیسا کہ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار سےظاہر ہےتشدد کی وارداتیں برابر ہو رہی ہے، جن کی شدّت پچھلے تین سال کے دوران ایک ہی سطح پررہی ہے۔ لیکن سیکیورٹی کی صورت حال کم و بیش مستحکم ہونے کےباوجود حالیہ مہینوں کے دوران سیاسی صورت حال میں ابتری آئی ہے۔

جمعرات کے روز ایک تنازعہ طُول پکڑتا دکھائی دے رہا تھا۔ مرکزی حکومت شیعہٴ قیاد ت کے تحت ہے جس کا ملک کی کُرد اقلیت کے ساتھ جھگڑا طُول پکڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ پچھلے سال کُرد حکّام نے ایکسان موبل کمپنی کے ساتھ تیل کی تلاش کا ایک معاہدہ کیا تھا جسے بغداد کی حکومت نے غیرقانونی قرار دیا ہے۔ بلکہ بغداد میں تیل کی مرکزی وزارت نے دہمکی دی ہے کہ بجٹ میں کردستان کے لئے مختص رقم روک لی جائے گی بلکہ اس نے تیل کے ٹھیکوں میں بولی دینے والی کمپنیوں میں سے ایکسان موبل کا نام نکال دیا ہے۔

بغداد کی حکومت کو عرصے سے یہ اصرار رہا ہے کہ تیل کے ٹھیکے دینے کا اختیار اُسی کے پاس ہونا چاہئے جو ملک کی بیشتر آمدنی کا ذریعہ ہے۔ لیکن تیل کی آمدنی کی تقسیم سے متعلّق قانون سا ل ہا سال سے معطّل پڑا ہے۔

فرانس میں اتوار کو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ’لاس انجلس ٹائمز‘ کا کہنا ہے کہ موجوہ صدر نکولس سر کوزی اور سوشلسٹ پارٹی سے ان کے مدّ مقابل فرانسوا ولانڈ، رائے عامّہ کے تازہ ترین عوامی جائزوں کے مطابق پہلے راؤنڈ میں تقریباً برابربرابر ہونگے ، لیکن دوسرے راؤنڈ میں اولانڈ کے لئے دس سے چودہ فی صد ووٹوں کی سبقت کی پیش گوئی کی گئی ہے ۔

ایک حالیہ اخبار ی جائزے کے مطابق 64 فیصد فرانسیسی شہری سرکوزی کو ناپسند کرتے ہیں لاس انجلیس ٹائمز کہتا ہے کہ حقیقت یہ ہے،کہ 57 سالہ سرکوزی اپنے بارے میں یہ عوامی تاثر دور کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ اُمراء کے صدر ہیں۔

اخبار کے مطابق سرکوزی نے وعدہ کیا تھا ٴ کہ وہ فرانس کوجرمنی کے ساتھ روائیتی شراکت داری سے ہٹا کر ملک کو اینگلو سیکسن طرز کی آزادانہ منڈی کے خطوط پر چلایئں گے ۔ بد قسمتی سے اقتصادی بُحران نے ان کے تمام اقتصادی منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ملک میں بے روزگاری پھیلی ۔ بجٹ تباہ کن خسارے کا شکار ہو گیا۔اس کی کریڈٹ ریٹنگ گر گئی ۔ اور جرمنی سے دور ہونے کے بجائے انہیں ، یورپ کے قرضے کی آگ بُجھانے کے لئے جرمنی کی چانسلر اینگیلا مرکل کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا پڑا ۔ انہیں اربوں ڈالر کے نئے ٹیکس لگانے پڑ گئے ۔ اور اخراجات میں بھاری کٹوتی کرنی پڑ گئی۔

یہاں امریکہ میں رواں سال میں ہونے والے صدارتی انتخابات کےبارے میں آئے دن عوامی جائزے لئے جاتے ہیں۔ تازہ تریں جائزہ ’وال سٹریٹ جرنل‘ اور ’این بی سی نُیوز‘ نے مل کر لیا ہے جس کے مطابق موجودہ صدر براک اوباما کو ری پبلکن اُمیداوار مِٹ رامنی کے مقابلے میں چھ پواینٹس کی برتری حاصل ہے۔ اورجہاں تک عوام میں پسندیدگی کا سوال ہے، اُس میں بھی مسٹر اوباما اپنے حریف سے کہیں بہتر سمجھے جاتے ہیں۔البتہ، معیشت کے شعبےمیں ووٹر انہیں کم زور تر سمجھ تے ہیں۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ صدراوباما اپنے آپ کو متوسّط طبقے کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کوشش میں اُنہیں عام انتخابات کے لئے تقویت حاصل ہو گئی ہے، جب کہ مٹ رامنی کے اس استدلال کو قبولیت حاصل ہو رہی ہے کہ وہ معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ انتخابات کو اب سات ماہ رہتے ہیں اور اس جائیزے کے مطابق مسٹر اوباما کئی محاذوں پر مٹ رامنی سے آگے ہیں۔

جہاں تک امیدواروں کی ذاتی خصوصیات کا تعلق ہے، مثلاً عام آدمی کے ساتھ ہمدردی کرنا ، متوسّط طبقے کے کا خیال کرنا، ان میں بھی مسٹر اوباما مٹ رامنی سے کہیں آگے ہیں۔ مثال کے طور پر پچاس فی صد امریکیوں کا کہنا تھا ۔ کہ مسٹر اوبامہ پسندیدہ شخصیت ہیں، جب کہ مٹ رامنی کے بارے میں ایسا تصوّر رکھنے والوں کا تناسب محض اٹھارہ فی صد تھا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG