رسائی کے لنکس

سب بشار سے نفرت کرتے ہیں: شکاگو ٹربیون


سب بشار سے نفرت کرتے ہیں: شکاگو ٹربیون
سب بشار سے نفرت کرتے ہیں: شکاگو ٹربیون

اخبار لکھتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے اگر شام کے صدر بشار الاسد کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا تھا تو اُس کی خاصی معقول وجوہات تھیں، کیونکہ اوباما انتظامیہ کا خیال تھا کہ یہ مطالبہ شام کے ہمسایہ ممالک سے آنا چاہیئے

اخبار’ شکاگو ٹربیون‘ کے اداریے کا عنوان ہے ’ سب بشار سے نفرت کرتے ہیں‘۔شام کے حالات سے وہاں جاری حکومت مخالف مظاہرے اور مظاہرین کے خلاف حکومتی فورسز کا بے دریغ طاقت کا استعمال دنیا کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔

’شکاگو ٹربیون‘ لکھتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے اگر شام کے صدر بشار الاسد کے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا تھا تو اُس کی خاصی معقول وجوہات تھیں، کیونکہ اوباما انتظامیہ کا خیال تھا کہ یہ مطالبہ شام کے ہمسایہ ممالک سے آنا چاہیئے۔

دوسرے ،اخبار کے خیال میں ایسا کرنے سے اسد خود کو امریکہ کا دشمن کہہ کر اندرونِ ملک زیادہ قوت حاصل کرلیتے مگر صدر اسد نے براک اوباما کے لیے اور کوئی چارہ نہیں رہنے دیا اور یہ نظارہ سخت اچھنبے کی بات تھی کہ شام کے بحری جہاز اپنے ہی شہروں پر گولہ باری کریں اور لتاکیہ میں درجنوں عام شہری ہلاک ہوجائیں۔

اخبار کے مطابق سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اس سال اب تک 2000مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔ مگر اپوزیشن کے حوصلے ماند نہیں پڑے۔ جمعے کے روز 6000افراد نے لتاکیہ کی کارروائی کے خلاف دمشق اور اُس کے نواح میں مظاہرہ کیا اور اسد پر بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ۔ اور اخبار کے مطابق اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی حالیہ رپورٹ کی روشنی میں ایسا کیا جانا مشکل بھی نہیں۔

صدر اوباما نے بھی آخرِ کار اعلان کردیا ہے کہ اب وقت ہے کہ صدر اسد کو اقتدار چھوڑ دینا چاہیئے۔

امریکہ اور یورپ میں اُس کے بعض اتحادی خود تعزیریں عائد کرنے کے بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ شام کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرے۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ بجا کہ تعزیروں کا اثر ایسا نہیں ہوتا کہ کسی حکومت کا خاتمہ ہوجائے مگر مہذب دنیا خاموش تماشائی بھی نہیں بن سکتی اور صدر اسد پر واضح ہونا چاہیئے کہ مزید خون بہا کر وہ حالات پر قابو تو پاسکتے ہیں مگر یہ فتح لق و دق ویرانے پر فتح سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوگی۔

اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ نے امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے دورہٴ ایشیا کو اپنےارادیے کا موضوع بنایا ہے۔

اخبار لکھتا ہے بائیڈن کو یہ فریضہ سونپا گیا کہ وہ چین کو باور کروائیں کی امریکہ اب بھی چین کی 10کھرب ڈالر کی تجارت کا متحمل ہے ۔ مگر اخبار کے مطابق چین کے لیے 40کھرب ڈالر کے اعداد وشمار زیادہ اہمیت رکھتے ہین جو اوباما کے تین سال سے بھی کم دور نے حکومت میں امریکی قرضے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اور چین کو یہ خدشات بھی ہیں کہ امریکی صارفین کی خریداری کی سکت پر بھروسہ ممکن نہیں رہا۔

اخبار کے مطابق نائب صدر جو بائیڈن جاپان بھی جائیں گے اور وہائٹ ہاؤس کے مطابق ان کے دورے کا مقصد جاپان امریکہ اتحاد کی مضبوطی کو اجاگر کرنا ہے۔

مگر اخبار توجہ دلاتا ہے کہ گذشتہ برس ایشیا میں امریکہ کے اس بہترین دوست کے خلاف چین نے جارحیت کا مظاہرہ کیا تو واشنگٹن نے جزائر سینکا کو کے اس تنازعے پر خاموشی اختیار کی۔

اخبار لکھتا ہے ڈالر اور یورو کی قیمت گِرنے پر سرمایہ کاروں کی نظریں جاپان پر لگی ہیں۔ دوسری جانب امریکہ کی موجودہ اقتصادی صورتِ حال میں بائیڈن کا دورہ نتائج کے لحاظ سے زیادہ امیدافزا نظر نہیں آتا کیونکہ سوت کی انٹی لے کر یوسف خریدنا اتنا بھی آسان نہیں۔

اخبار’ لاس انجلیس ٹائمز‘ میں ٹام کیمپ بل کا ایک مضمون چھپا ہے جس میں مصنف نے امریکہ میں ملازمتوں کی صورتِ حال کو موضوع بناتے ہوئے حکومت کو کچھ ایسے مشورے دیے ہیں کہ جِن سے اُن کے مطابق بے روزگاری کی شرح میں کمی کی جاسکتی ہے۔

مصنف کا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ حکومت کوچاہیئے کہ وہ کسی بھی نئے ملازم کی تنخواہ کا 50فی صد خود ایسے آجر کو ادا کرے جو نئی ملازمتیں پیدا کرے اور ایسے لوگوں کو ملازم رکھے جو چھ ماہ یا اُس سے زیادہ عرصے سے بے روزگار ہیں۔

کسی ملازم کی تنخواہ کا نصف خرچ برداشت نہ کرنا پڑے تو آجر لوگوں کو ملازمت دینے میں تامل محسوس نہیں کریں گے اور جب یہی لوگ اپنی تنخواہیں خرچ کرنے لگیں گے تو دیگر کمپنیوں میں توسیع ہوگی اور اقتصادی بحالی کی رفتار بہتر ہوگی۔

مصنف کا کہنا ہے اس پر اٹھنے والی رقم وفاقی بنک آسانی سے فراہم کر سکتا ہے۔ افراطِ زر اور قرضوں کی حد میں اضافے کے بغیر اور کانگریس کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ یہ اقدام کانگریسی اخراجات اور ٹیکسوں میں اضافے کے بغیر فیڈرل رزرو اور تہنا ہی انجام دے سکتا ہے۔

ٹام کیمپ بل کہتے ہیں لوگوں کو ملازمیں دیجیئے معشیت خود بخود بحال ہوجائے گی۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG