رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: واقعے کی ذمہ داری


За інформацією Associated Press, малійські повстанці-туареги вже заявили про готовність до мирних переговорів. Кочівники-туареги вже більше сторіччя ведуть боротьбу за відділення він південної частини Малі, яка заселена етнічно та культурно чужими для них негритянськими племенами.
За інформацією Associated Press, малійські повстанці-туареги вже заявили про готовність до мирних переговорів. Кочівники-туареги вже більше сторіччя ведуть боротьбу за відділення він південної частини Малі, яка заселена етнічно та культурно чужими для них негритянськими племенами.

مہمند ایجنسی پر نیٹو حملے کے حوالے سے امریکہ پہلی بار یہ اعتراف کر رہا ہے کہ اِس کی خاصی ذمہ داری اُسی پر عائد ہوتی ہے

پچھلےماہ پاکستانی چوکی پر نیٹو فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کی تحقیقات کے نتائج پر’وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کےمطابق، امریکہ پہلی باراس کا اعتراف کر رہا ہے کہ اس کی خاصی ذمہ داری اُسی پر عائد ہوتی ہے۔

اخبار نے امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اِس سے امریکی فوج کی سُبکی ضرور ہوگی، لیکن اِس سے دونوں ملکوں کے مابین پیدا شدہ عدم اعتماد کی فضا سے نکلنے کی راہ نکل آئے گی۔ تحقیقات سے یہ بات پایہٴ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ افغان اور امریکی کمانڈوز اِس غلط نتیجے پر پہنچے تھے کہ سرحد کے اِس حصّے میں کوئی پاکستانی فوجی نہیں جہاں وہ کاروائی کر رہے تھے، جس کی وجہ سےانہوں نے پاکستانی ٹھکانوں کو تباہ کرنے والا فضائی حملہ کیا۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ ابتدائی حملہ کرنے کےبعد امریکی فوجیوں نے پاکستانی فوجی نمائندوں کو نا درست اعدادو شمار بھیجنے کی دوہری غلطی کی، جس کی وجہ سے لڑائی بند کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔

اخبار کہتاہے کہ تحقیقات سے واقعات کے بارے میں پاکستانی بیان کےکلیدی حصّوں کی صداقت ثابت ہو گئی ہے ۔

پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر جوابی کاروائی میں افغان سرحد کو بند کرنے کے بارے میں وال سٹریٹ جرنل کہتا ہےکہ اس سے امریکی فوجی کمانڈروں کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، کیونکہ ان کا اس سرحد کے کھلے رہنے پر بھاری انحصار ہے، جہاں سے افغانستان میں لڑنے والی افواج کے لئےایندھن ، گولہ باروداور دوسرا اہم سامان رسد فراہم ہوتا ہے۔

چنانچہ، سرحد دوبارہ کھولنے پر جو مذاکرات ہو رہے ہیں اُن میں پاکستان نےاصرار کیا ہے کہ سرحد عبور کرنے کی فیس کی پیشگی ادا ئگی ہونی چاہئیے۔ پاکستان کو شکایت رہی ہے کہ ماضی میں ان ادائیگیوں میں تاخیر کی جاتی رہی ہے۔ اخبار کے مطابق اسلام آبادامریکہ سے یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ سرحد پر افغان پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنے میں امداد فراہم کرے۔

امریکی فوجوں کے مکمّل انخلاء کے بعد عراق کی گُومگُو صورت حال پر’ نیو یارک ٹایمز ‘ ایک ادرئے میں کہتا ہے کہ اس کی تو کسی کو توقّع نہیں تھی ، کہ اس ملک کو جن خطروں اور کشیدگیوں کا سامنا ہے، وہ راتوں رات غائب ہو جائیں گی ۔ لیکن وزیر اعظم نوری المالکی سے یہ تو توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر عراق کو استوار کرنے کی راہ میں حائل چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اس کے بر عکس ، مسٹر مالکی نے، جو خود شیعہ ہیں، سنّی اقلیت کو ساتھ ملانے کے بجائے اس سے قصاص لینےکو ترجیح دی ہے اور انہوں نے نائب صدر طارق الہاشمی کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرکے ایک خطرناک سیاسی بحران کھڑا کر دیا ہے اور ان پر موت کے سوداگروں کی سرپرستی کرنے کا الزام لگایا ہے۔

مسٹر ہاشمی نے اس الزام کی تردید کی ہے اور گرفتاری سے بچنے کے لئے نیم خودمختار کُرد علاقے میں پناہ لی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلاء کے فوراً بعد یہ کاروائی نہایت ہی مشکوک ہے ۔اگر ان الزامات میں کوئی صداقت ہے ۔ تو ان کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ مسٹر مالکی کی حکومت نے ملک کی کمزور عدلیہ کے امور میں اکثر مداخلت کی ہے۔ری پبلکن سینٹرون جان میکین اور لنڈسی گراہم نے صدر اوبامہ پر جو یہ نقطہ چینی کی ہے کہ امریکی فوجوں کو عراق میں زیادہ دیر رکھنا چاہئے تھا۔ اس پر اخبار کہتا ہےیہ نہ بھولنا چاہئے کہ معاہدے کے مطابق اس سال کے آخر تک امریکی فوجوں کو وہاں سے بہر حال نکلنا تھا۔ اخبار کہتاہے کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ جنگ سرے سے ہونی ہی نہیں چاہئے تھی ۔ اوراس کے آغاز کے بعدسے جو حماقتیں وہاں سر زد ہو ئی ہیں ان میں سے بیشتر کا الزام جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کو جاتا ہے۔

اخبار کہتا ہے فوجوں کے انخلاء کے بعد بھی واشنگٹن کے پاس دباؤ ڈالنے حربہ ہے، مثلاً عراق نے جن ایف سولہ طیاروں کا آرڈر دے رکھا ہے وہ ان کی فراہمی روک سکتا ہے۔ اور وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کے وعدے پورا کرنے میں تاخیری جربے استعمال کر سکتا ہے۔

کرسمس کی مناسبت سے ’ڈیٹرایٹ نیوز‘ اخبارکہتاہے کہ چار صدیاں قبل یورپی نوآباد کاروں کی اس نئی دنیا میں آمد کے ساتھ ہی یہ تہوار بحث کا موضوع رہا ہے۔ شروع میں آنے والے آبادکاروں کا خیال تھا

کہ اس اسے سادگی سے اور محض گرجا میں عبادت کر کے منانا چاہئیے، بلکہ بعض پیورٹنوں کا کہنا تھا کہ کرسمس سرے سے منانا ہی نہیں چاہئے۔ جدید کرسمس کا آغاز 1800 کی دہائی سے ہوا ۔جس کے بعد کرسمس کے درخت، ساں تا کلاز، رینڈیئر، مزیّن کارڈوں اور ایک دوسرے کو قیمتی تحفے تحائف دینے کا رواج پڑگیا۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG