رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے:جوہری بم بنانے کی ایرانی کوششیں


امریکی اخبارات سے:جوہری بم بنانے کی ایرانی کوششیں
امریکی اخبارات سے:جوہری بم بنانے کی ایرانی کوششیں

تازہ ترین امریکی انٹیلی جینس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران ابھی جوہری بم بنانے کی کوشش نہیں رہا، بلکہ وہ ایسی تحقیق میں مصروف ہے جِس کے نتیجے میں وہ بالآخر بم بنانے کے قابل ہوجائے گا

’لاس اینجلس ٹائمز‘ اخبار کہتا ہے کہ تازہ ترین امریکی انٹیلی جینس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران ابھی جوہری بم بنانے کی کوشش نہیں رہا، بلکہ وہ ایسی تحقیق میں مصروف ہے جِس کے نتیجے میں وہ بالآخر بم بنانے کے قابل ہوجائے گا۔

واشنگٹن ڈیٹ لائین سے اخبار کے Ken Delanianنےایک مراسلے میں بتایا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی عہدہ دار پبلک میں ایران کی جوہری تنصیبات کےخلاف کاروائی کی بات توکرتے ہیں، لیکن اِس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ امریکی انٹیلی جینس ادارے باور نہیں کرتے کہ ایران عملی طور پر ایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔


تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، جِس پر امریکہ کی 16انٹیلی جینس ایجنسیوں کا اتفاقِ رائے ہے، یہ ظاہر ہے کہ ایران ایسی تحقیق میں ضرور مصروف ہے جِس کی بدولت وہ بالآخر جوہری ہتھیار بنانے کے قابل ہوجائے گا، لیکن ابھی اُس نے ایسا نہیں کیا ہے۔

ایران نچلی سطح پر یورینیم کی افزودگی میں مصروف ضرور ہے، لیکن امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ اُنھیں ایسے کوئی شواہد نظر نہیں آرہے جِن کی بنیاد پر وہ اپنی رائے میں کوئی اہم تبدیلی کرنے پر مجبور ہوں۔


اِسی کے ساتھ ساتھ، اخبار نے سرکردہ امریکی عہدے داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل کو اِس بنیادی انٹیلی جینس اور اِس تجزئے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔

لیکن، ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی اسرائیل نے جو وجہ ذہن میں باندھی ہوئی تھی اب اُس نے اِس کو بدل دیا ہے۔ یعنی، واشنگٹن سے اختلاف کرتے ہوئے، اسرائیل ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے اوروہ اُس کی اجازت نہیں دے گا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے اور اُس کو استعمال کرنے کی صلاحیت حاصل کرسکے۔ اخبار کہتا ہے کہ بعض اسرائیلی عہدے داروں نے ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے امکان کی بات کی ہے، تاکہ ایران کو روکا جائے، قبل اِس کے کہ اُس میں بہت زیادہ دیر ہوجائے۔


’اخبار بالٹی مور سن‘ نے امریکہ کی سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ اُسے اپنےسنہ 2010کے اُس فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیئےجِس کے نتیجے میں کاروباری اداروں کو انتخابی مہموں کے لیے چندہ دینے کی کوئی حد نہیں ہے۔


اخبار کہتا ہے:’’ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیسہ نہیں بولتا؟‘‘ ذرا ریپبلیکن پارٹی کے اُن چند صدارتی امیدواروں سے پوچھئیے جِن کی قسمت اُن چیدہ دولتمندوں سے وابستہ ہے جو بڑی بڑی پولٹیکل ایکشن کمیٹیوں کو یا ’سُوپرپیکس‘ کو اندھا دھند چندہ دیتے ہیں۔ یہ پیکس پھر اُن کی طرف سے غیر محدود رقوم خرچ کرتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اِس ہفتے انتخابی مہموں کے اخراجات کے بارے میں جو رپورٹیں بھیجی گئی ہیں، اُن کے مطابق، 23بڑے بڑےچندہ دینے والوں نے پانچ کروڑ 30لاکھ ڈالرکی رقم مٹ رامنی، رِک سنٹورم، نیوٹ گنگرچ اور ران پال کی حمایت کرنے والے پیکس کو دی ہے۔


یہ رقم، اُن امیدواروں کے اپنے طور پر جمع کیےہوئے مجموعی چندے سے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ انفرادی چندے کی حد ڈھائی ہزار ڈالر ہے۔


اخبار کہتا ہے کہ اِس بھاری مقدار میں نقدی کی فراہمی سے یہ سوپر پیک امریکی سیاسی عمل کو پراگندہ کرسکتے ہیں، کیونکہ اگرچہ امیدواروں کو خود تو اِس کاروائی کے ذمہ دار لوگوں سے رابطہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن عملی طور پر یہ سوپر پیک دراصل اُنہی امیدواروں کے سابق معاون رہے ہیں۔


اخبار کہتا ہے کہ ایسے آثار ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو اِس مسئلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت کا احساس ہونے لگا ہے ۔ جسٹس Ginsburgکےایک حالیہ فیصلے سے امید ہوگئی ہے کہ عدالتِ عالیہ اب شاید اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے پر آمادہ ہے جس کی رُو سے مختلف تنظیموں کی طرف سے سیاسی مہمات پر اخراجات اُٹھانے کی حد مقرر نہیں ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG