رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: افغانستان، مجوزہ امریکی مراسلہ


صدر کرزئی نے درخواست کی ہے کہ مسٹر اوبامہ یہ خط لکھیں تو اس کے عوض وہ سنہ 2014 کے بعد، امریکی فوجوں کے افغان گھروں پر حملے کرنے کی مخالفت کرنا بند کردیں گے

امریکی اخبارات کے مطابق، افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی کا ایک معاہدہ طے پانے کے قریب ہے۔ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ منگل کو امریکی اور افغان عہدہ دار ایک سمجھوتے کے قریب پہنچ گئے جس کے تحت امریکی فوجیں افغانستان میں موجود رہیں گی، اور اب اختلاف محض اس بات پر ہے کہ آیا صدر براک اوبامہ جنگ کے دوران کی گئی امریکی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک خط لکھیں گے۔

صدر کرزئی نے درخواست کی ہے کہ مسٹر اوبامہ یہ خط لکھیں تو اس کے عوض وہ سنہ 2014 کے بعد، امریکی فوجوں کے افغان گھروں پر حملے کرنے کی مخالفت کرنا بند کردیں گے۔

مسٹر کرزئی کے ترجمان، ایمل فیضی کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ اگر امریکہ کی طرف سے یہ قدم اُٹھایا گیا تو اس کے جواب میں کابل، امریکی فوجوں کو جان کے خطرے کی صورت میں ایسے حملوں کی اجازت دے گا۔


اخبار کہتا ہے کہ واشنگٹن میں وہائٹ ہاؤس کے عہدہ دار اس کی تصدیق نہیں کرتے کہ مسٹر اوبامہ اس قسم کا خط لکھیں گے۔ پریس سکرٹری جے کارنی نے کہا کہ وہ کسی ایسے خط پر کُچھ نہیں کہہ سکتےجو ابھی لکھا بھی نہیں گیا۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2014 کے بعد افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی برقرار رکھنے پر آخر ی رکاوٹ دور کر دی گئی ہے۔ اور یہ کہ افغانوں کے نام ایک خط میں بعض یقین دہانیاں کرائی جائیں گی اور دونوں ملکوں کے عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس خط پر صدر اوبامہ دستخط کریں گے۔

بتایا گیا ہے کہ یہ خط مسٹر کرزئی کےبلائے گئے ڈھائی ہزار قبائیلی سرداروں کے اُس لوئے جرگے کے اجتماع میں پڑھ کر سنایا جائے گا، جس میں امریکہ کے ساتھ طویل المیعاد سیکیورٹی معاہدہ کی توثیق کی جائے گی۔

اخبار کی اطلاع ہے کہ مسٹر اوبامہ کے ایسے خط پر دستخط کرنے کا دارومدار اس کے متن پر ہوگا، جس پر ابھی غور ہو رہا ہے۔


انتظامیہ کے ایک سرکردہ عہدہ دار کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ صدر کو دستخط کرنے پر اعتراض نہیں اور 24 گھنٹوں کے اندر اندر اس پر فیصلہ ہو جائے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ اس معاہدے کا مسوّدہ حالیہ ہفتوں میں مکمّل کرلیا گیا ہے اور امریکی ارکان کانگریس کو اس سے مطلع کردیا گیا ہے۔

امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ مسٹر کرزئی کو
اس کا احساس ہے۔ اور مسٹر کرزئی کو اُن امور پر، بقول اُن کے، سیاسی جواز پیش کرنے کی ضرورت پڑے گی جو اس جرگے میں اُٹھائے جائیں گے، تاکہ اسے اس ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے کہ اُنہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں سخت لائن اختیار کی تھی۔ اور یہ کہ معاہدے میں جو بنیادی باتیں طے ہوئی ہیں اُن پر ایسی یقین دہانیاں دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اخبار نے یاد دلایا ہے کہ اس سے پہلے بھی جب امریکی فوجوں کی طرف سے غلط اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے، تو اس کے لئے اعلیٰ سطح کے امریکی عہدہ داروں کی طرف سے معافی مانگی ہے۔


معروف تجزیہ کار، تھامس فریڈ مان، ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ میں ایک کالم میں ایران کے ساتھ ایک جوہری معاہدہ طے کرنےکی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیرخارجہ جان کیری ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں جس قسم کا سمجھوتہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ بالآخر نہ صرف امریکہ بلکہ اس کے اتحادیوں کے لئے اچھا ثابت ہوگا۔۔جس کی وہ چار وجوہات بتاتے ہیں۔

اوّل، محض چند تعزیرات ہٹانے کے عوض ایران کو اپنی جوہری بم بنانے کی ٹیکنالوجیز کو بند کرنا پڑے گا۔ نمبر دو، اسرائیلی وایر اعظم نیتن یاہو کا خیال ہے کہ ایران پر مزید تعزیرات لگانے سے ایران کو اپنی جوہری ٹیکنالوجی کے ہر ہر ذرّے سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ لیکن جو ماہرین ایران کو سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ نمبر تین، ایران نے پہلے ہی بم بنانے کی ٹکنالوجی پر قدرت حاصل کرلی ہے، چنانچہ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعے آپ ایرانی جوہری ٹیکنالوجی کے ہر ذرّے کو نیست و نابود کریں ماسوائے اس کہ آپ وہاں ہر چیز کا صفایا کردیں۔ نمبر چار، لہٰذا پائدار سیکیورٹی اُسی صورت ممکن ہے کہ ایران کے اندر مکمل تبدیلی آئے، جو کہ زیادہ کُھلے پن سے آسکتی ہے۔ چناچہ، جان کیری جس معاہدے کے لئے کوشاں ہیں، اُس سے نہ صرف ایران کے جوہری پروگرام کی بساط لپیٹی جائے گی، بلکہ وہاں اعتدال پسند رجحانات کو فروغ ملے گا۔
XS
SM
MD
LG