رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: اقتصادی شرح نمو میں خاطرخواہ اضافہ


بہت سے معاشی ماہرین کی یہ رائے ہے کہ اقتصادی نمو کی شرح اگلے سال بڑھ کر تین فیصد ہوجائے گی، یعنی دو فیصد کی اُس شرح کے مقابلے میں کافی بہتر جو پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران دیکھنے میں آئی ہے

’لاس انجلس ٹائمز‘ کے ایک تجزئے کے مطابق، چھ سال کی کساد بازاری اور پھر متّذبذب بحالی کے بعد اب امریکی معیشت اگلے سال ایک ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے، جس میں روزگار کے مواقع زیادہ تیزی سے بڑھیں گے، زیادہ لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوگا اور اپنا مکان خریدنے والوں کی تعداد معتد بہ حد تک بڑھ جائے گی۔

اخبار کہتا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران امریکہ کی مجموعی معاشی صورت حال میں زبردست بہتری آئی ہے، جیسا کہ حیرت انگیز اقتصادی اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے۔

کاروباری ادارے نئے ملازم رکھ رہے ہیں، اور سمندرپار سے فیکٹریوں کو جو آرڈر مل رہے ہیں، وُہ دو سال میں سب سے زیادہ ہیں، اور گاڑیاں خریدنے والے اور ریستورانوں میں کھانے پینے والے صارفین کی تعداد بے تحاشہ بڑھ رہی ہے، ریاستی اور بلدیاتی ادارے جنھیں زیادہ عرصہ نہیں ہوا، بھاری پیمانے پر کٹوتیاں کر رہے تھے، اب زیادہ خرچ کرنے لگے ہیں۔

اور ایک ماہر اقتصادیات کا اندازہ ہے کہ اگلے سال بے روزگاری کی شرح گر کر چھ فیصد ہو جائے گی۔ بلکہ، بعض ماہرین کے تخمینے کے مطابق، اب جب کہ ایوان نمائیدگان نے دونوں پارٹیوں کی حمائت سے دو سال کے بجٹ کا سودا کرلیا ہے، اقتصادی نمُو اس سے بھی زیادہ مضوط ہو سکتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ بہت سے معاشی ماہرین کی یہ رائے ہے کہ اقتصادی نمو کی شرح اگلے سال بڑھ کر تین فیصد ہوجائے گی، یعنی دو فیصد کی اُس شرح کے مقابلے میں کافی بہتر جو پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران دیکھنے میں آئی ہے۔ تین فیصد کی شرح نمو کی بدولت امریکہ میں روزگار کے نئے مواقع بڑھ کر اڑھائی لاکھ ماہانہ ہو جائیں گے۔ اور اس طرح، ملک میں کساد بازاری کی وجہ سے روزگار کے جتنے مواقع ہاتھ سے نکل گئے تھےوُہ سب 2014 کے اواخر تک واپس آجائیں گے۔ اس طرح بے روزگاروں کی شرح ساڑھے پانچ اور چھ فیصد تک گر جائے گی۔

اخبار کہتا ہے کہ عالمی مسابقت اور کمپیوُٹروں اور نئی ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں درمیانی درجے کے اُن مزدوروں کی ضرورت باقی نہیں رہی، جِن کے پاس کوئی خاص ہُنر نہیں ہوتا، جس کے بعد اب بعض ماہرینِ اقتصادیات نے اس سابقہ مفروضے پر دوبارہ غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ پُورے روزگار کے معنی ہوتے ہیں چار یا پانچ فی صد بے روزگاری۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ چین نے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ علاقائی تنازعوں کے معاملے میں جس بڑھتی ہوئی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے تناظر میں، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اعلان کیا ہے کہ بیجنگ کے ساتھ اس بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیش نظر امریکہ، ان جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کے لئے بحری سیکیورٹی میں اضافہ کرے گا۔ مسٹر کیری نے، جو ویتنام کے دورے پر ہیں، جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی ایسو سی ایشن کے رُکن ممالک کے لئے ساڑھے 32 میلین ڈالر کی اضافی سیکیورٹی امداد کا اعلان کیا ہے، تاکہ وُہ اپنے علاقائی سمندر اور جنوبی چینی سمندر میں اپنے جہاز رانی کے حقوق کا تحفّظ کر سکیں، جہاں چار ملکوں کے دعوے چین سے متّصادم ہیں۔

اس رقم میں اٹھارہ ملین ڈالر ویت نام کے لئے مخصوص ہیں۔ اور اس کے تحت ویت نامی کوسٹ گارڈوں کے لئے پانچ گشتی کشتیاں مہیّا کی جائیں گی۔ اس نئی امداد کے بعد سمندری سیکیورٹی کی مد میں دو سال میں امریکی امداد کا میزان 156 میلین ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔

مسٹر کیری نے کہا ہے کہ امداد کا یہ فیصلہ علی الٹپ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ یہ اوبامہ انتظامیہ کے اُس وسیع تر فیصلے کا حّصہ ہے جس کا مقصد ایشیا اور جنوبی بحرالکاہل کے خطے پر توجّہ مرکوز رکھنا ہے۔ مسٹر کیری کا یہ بیان اُس الزام تراشی کے پس منظر میں آیا ہے جو واشنگٹن اور بیجنگ نے ایک دوسرے پر گیارہ دن پہلے اُس واقعے کے بعد کی ہے جس میں جنوبی چین کے سمندر میں دونوں ملکوں کے جہاز ایک دوسرے سےٹکراتے ٹکراتے رہ گئے۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ 1975 میں ویت نام کی جنگ ختم ہونے کے بعد یہ مسٹر کیری کا اُس ملک کا 14 واں دورہ ہے، جس میں اُنہوں نے ویت نامی عہدہ داروں پر زور دیا کہ وہ سیاسی نظربندوں کو رہا کریں اور اپنے حقوق انسانی کے ریکارڈ میں کُچھ بہتری لائیں، خاص طور پر انٹرنیٹ اور مذہبی آزادی میں۔

اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ نے رواں سال میں امریکی کانگریس کے قانون سازی کے ریکارڈ پر تنقید کرتے ہوئے صدر اوبامہ کے دو ہفتے قبل اس بیان کی طر ف توجّہ دلائی ہے کہ ری پبلکنوں کو اپنا فرض نہ نبھانے پر شرم آنی چاہئے۔

اخبار کہتا ہے کہ اُن کا اشارہ موجودہ ایک سو تیرہویں کانگریس کی طرف تھا، جس نے اس سال صرف 56 مسوّدہ ہائے قانون کی منظوری دی ہےاور جیسا کہ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے کہا ہے اس طرح یہ سب سے کم کام کرنے والی کانگریس ثابت ہوئی ہے، جب کہ ’نیو یارک ٹائمز‘ کی نظر میں یہ کمترین کارگُذاری کے زمرے میں آتی ہےِ ۔

اخبار کہتا ہے کہ سنہ دو ہزار کے بعد کے دور میں، قانوں سازی کا عمل بتدریج تنزُّل کی طرف جاتا رہا ہے، جس کی وجہ محاذ آرائی اور گرِڈلاک ہے۔ ایک اور وجہ، اخبار کی نظر میں، یہ ہو سکتی ہے کہ بیسویں صدی میں کانگریس نے اتنی بہتات سے قانون بنائے کہ نئے قانونوں کی گنجائش نہ رہی۔

اخبار کی نظر میں، کم قانون وضع ہونے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ منتخب قانون سازوں کا کام اب غیر منتخب شدہ بیورو کریٹ ان کے لئے کرتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG