رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: آتشیں اسلحے پر پابندی


Gun Control Advocates See Possibilities
Gun Control Advocates See Possibilities

تشدّد نے نہ صرف انسانی جانیں لی ہیں، بلکہ پورے معاشرے اور رہن سہن کو اجیرن بنا دیا ہے۔ دُنیا میں امریکہ کے علاوہ کوئی ایسا معاشرہ نہیں ہےجوایک فرد کے ہاتھوں باقاعدگی کے ساتھ ایسے قتل عام کا شکار ہوا ہو جس کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں

ریاست کنیٹی کٹ کے ایک پرائمری سکول میں ایک سر پھرے بندوق بردار کے ہاتھوں 20 معصوم بچوں سمیت 26 افراد کے خُون ناحق کے بعد امریکہ میں آتشیں اسلحے پر پابندیاں عائد کرنے پر بحث جاری ہے۔

’فلاڈلفیا انکوائرر‘ اخبار میں رچرڈ سائف من ایک مراسلے میں لکھتے ہیں کہ بحث یہ ہے کہ کیا امریکہ کو بندوقوں سے پاک علاقہ بنا دینا چاہئیے تاکہ ملک کوتشدّد کے اِس لایعنی چکّر سےنجات دلائی جائے۔

اُنہوں نے نائب صدر جو بائڈن اور بندوقوں کے تشدّد سے متعلق اُن کی ٹاسک فورس کو مشورہ دیا ہے کہ اِس مسئلے سے نمٹنے کے لئے اُنہیں ٹیکنالوجی کےطویل المیعاد امکانات پرغور کرنا چاہئیے۔

اب تک کئی نُسخے آزمائے جا چکے ہیں۔ اسلحے کے مالکان کے ماضی کی تفتیش، خطرناک ہتھیار رکھنے کی ممانعت، پولیس کی حفاظت میں اضافہ کرنا اور عوام کی معلومات بڑھانے کی مہمیں چلانا اسی کی مثالیں ہیں جِن کی مدد سے اِس مسئلے کا عارضی حل ضرور نکلا ہے، لیکن کار گر کوئی ثابت نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا، وقت آگیا ہے کہ نئے طریقے آزمائے جائیں۔

تشدّد نے نہ صرف انسانی جانیں لی ہیں، بلکہ پورے معاشرے اور رہن سہن کو اجیرن بنا دیا ہے۔ دُنیا میں امریکہ کے علاوہ کوئی ایسا معاشرہ نہیں ہےجوایک فرد کے ہاتھوں باقاعدگی کے ساتھ ایسے قتل عام کا شکار ہوا ہو جس کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس کے باوجود، اس ملک نے اس کو نہ تو قومی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور نہ ہی اِس کے سدّباب کے لئے مناسب وسائیل دستیاب کئے ہیں۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ مُلک میں اِس وقت تقریباً 28 کروڑ بارودی ہتھیارموجود ہیں اور اُن میں برابر اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

ماضی میں جب بھی قومی سلامتی کے لئے کوئی خطرہ پیدا ہوا ہے، تو ہم نے اپنے سائنسی اور مالی و سائل کی مدد سے اس سے کامیابی کے ساتھ نمٹنےکی صلاحیت کا مظاہرہ کیاہے۔

مضمون نگار کا سوال ہے کہ اگر ہم نے کمپیوٹر وائرس سے لےکر ایرانی جوہری پروگرام کو بے اثر بنانے، اور ملک کو مزائیل حملوں کے خلاف پیٹریٹ دفاعی نظام قائم کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے ، تو کوئی وجہ نہیں کہ جو خود کار ہتھیار غلط ہاتھوں میں ہیں، اُن کو بھی اسی طرح کیوں ناکارہ نہ بنا دیا جائے۔

’لاس ویگس سن‘ اخبار نے صدر اوبامہ کی طرف سے اپنی نئی کابینہ کے لئے ارکان کی نامزدگیوں پر ایک ادارئے میں کہاہے کہ وزیر خارجہ کے عہدے کے لئے صدر نے پہلے سفیر سُوزن رائس کا نام تجویز کیا تھا ۔لیکن، ری پبلکن مخالفت کے بعد اُنہوں نے اس کے لئے سینیٹر جان کیری کو نامزد کیا۔

اب، اخبار کہتا ہے کہ ری پبلکن مخالفت کا ہدف سابق ری پبلکن سینیٹر چک ہیگل ہیں، جن کو صدر نے وزارت دفاع کے لئے نامزد کیا ہے ۔ اور صدر یہ نامزدگی واپس لینے کے لئے تیار نہیں۔کیونکہ، اخبار کے خیال میں صدر یہ جتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ دوبارہ ری پبلکن مخالفت کا سامنے گُھٹنے ٹیکنے کے لئے تیار نہیں۔

ایک وجہ یہ ہے کہ صدر سمجھتے ہیں کہ ہیگل قدامت پسند تو ہیں، لیکن جدید دُنیا میں امریکی فوج کے کردار کے معاملے میں صدر اوبامہ کے ہم خیال ہیں۔ دونوں مداخلت کاری کے معاملے میں محتاط واقع ہوئے ہیں اور افغانستان سے فوجوں کا انخلا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ، ویت نام جنگ کے ایک ایسے سابق فوجی کی حمائت سُود مند ثابت ہوگی جسےاپنے ری پبلکن ساتھیوں کو ناراض کرنے میں کوئی جھجک نہ ہوگی، بجٹ اخراجات میں کٹوتی کے اس دور میں مسٹر اوبامہ کے حق میں یہ اچھا ہوگا کہ دفاع کا محکمہ فوجی تجربے والے فرد کے پاس ہو۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ ہندوستان کی تجویز ہے کہ ٹیکنالوجی کی کئی مصنوعات کی درآمدات پرزبردست پابندیاں عائد کی جائیں۔اِن مصنوعات میں لیپ ٹاپ سے لے کر کمپویٹر نیٹ ورک کا سازو سامان شامل ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس نے ہندوستان کی مجوّزہ پابندیوں یا ضوابط کا جائزہ لیا ہے، اور اگر یہ لگا دی جاتی ہیں تو ان اعلیٰ فنیاتی مصنوعات کا بیشتر حصہ صرف اسی صورت میں اس ملک میں بک سکے گا اگر وہ ہندوستان ہی میں بنا ہو، اور اس سے امریکی اور دوسری غیر ملکی کمپنیوں کے منصوبے بُری طرح متاثر ہونگے۔ اور ان ضوابط کے تحت ان پر لازمی ہوجائے گا کہ وہ جلد از جلد ہندوستان کے اندر اپنی اپنی فیکٹریاں قائم کریں یا پھر اپنی موجودہ فیکٹریوں کی پیداواریت میں بھاری وسعت پیدا کریں۔ بصورت دیگر اُن کو اپنی موجودہ تجارت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
XS
SM
MD
LG