رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے:اسرائیل فلسطین


مشرق وسطیٰ پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں نے مشورہ دیا ہے کہ اسرائیل کے اپنے دورے میں مسٹر اوبامہ دونوں فریقوں کے عہدہ داروں پر زور دیں کہ وہ بنیادی اصولوں کا اعادہ کریں اور ایک دوسرے کے شہریوں کے شکوک و شبہات رفع کریں

اسرائیلی فلسطینی مناقشے پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین ڈیوڈ مکاؤسکی اور غیث العُمری نے ایک مضمون میں وہائٹ ہاؤس کے اِس اعلان پر کہ صدر اوبامہ اسرائیل اور مغربی کنارے کے دورے میں اپنے ساتھ کوئی نیا منصوبہ لے کر نہیں جارہے، کہا ہے کہ اِس سے اِس خیال کی تصدیق ہوتی ہےکہ یہ دورہ، اُن کے دوسرے عہدِ صدارت کے آغاز پر اُنھیں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک نئی نہج پر چلانے کا موقع فراہم کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومتوں کے باہمی تعلقات کو تقویت دینے کی اہمیت مسلمّ ہے۔ لیکن، جب تک دونوں جانب کے عوام کو کسی بھی قسم کی پیش رفت کے بارے میں شکوک و شبہات ہوں، اسرائیلی اور فلسطینی لیڈروں کے مابین کسی قسم کے سمجھوتے کا تصور مشکل ہے۔

اس کے باوجود اگر وائٹ ہاؤس اپنی توجہ حکومتوں پر نہیں بلکہ عوام پر مرکوز کرے اور دونوں جانب کے لیڈروں کی طرف سے دئے گئے بیانات کی طرف توجہ دلائے تو اس کے نتیجے میں حقیقی معنوں میں پیش رفت ممکن ہے۔ اور حالیہ برسوں میں دونوں وزیر اعظم نیتن یاہواور فلسطینی صدر محمود عباس کلیدی اُمور پر معنی خیز بیانات دے چکے ہیں۔

امریکی کانگریس میں سنہ 2011میں مسٹر نیتن یاہو نے اپنےخطاب میں کہا تھا کہ وہ ایسے امن کے متمنی ہیں جس میں فلسطینی نہ تو اسرائیل کی رعایا ہوں گے اور نہ اُس کے شہری۔ اُنھیں تو اپنی خودمختار اور آزادمملکت میں عزت کی قومی زندگی گزارنے کا حق ہونا چاہئیے۔

اسی طرح، محمود عباس جون 2010ء میں واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ کوئی شخص مشرق وسطیٰ میں یہودیوں کی تاریخ سے انکار نہیں کرسکتا۔قرآن پاک کا ایک تہائی حصہ مشرق وسطیٰ میں یہودیوں کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور ہماری طرف سے کسی نے بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا ہے کہ یہودی فلسطین میں موجود تھے، مشرق وسطیٰ میں موجودہ تھے۔

مضمون نگار کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے اس قسم کے مثبت بیانات کو اکثر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

فلسطینیوں کو یہ اندیشہ ہے کہ اسرائیل اپنی سرحدیں دریائے اردن تک پھیلائے گا اور غیر معینہ مدت تک اپنا قبضہ برقرار رکھے گا، جب کہ اسرائیلیوں کی سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ فلسطینی یہودی ریاست کےاخلاقی جواز کو بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ چناچہ، اُن کا مسٹر اوباما کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے دورے میں دونوں فریقوں کے عہدہ داروں پر زور دیں کہ وہ بنیادی اصولوں کا اعادہ کریں اور ایک دوسرے کے شہریوں کے شکوک و شبہات رفع کریں۔ اگر کوئی پیش رفت کرنا مقصود ہے تو دونوں جانب کے عوام کی بداعتمادی دور کرنا ضروری ہے۔

اُدھر اسرائیل کےاتحادیوں نے اُسے خبردار کیا ہے کہ وہ یہودی بسیتوں کی تعمیر کرکے اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

’لاس انجلس ٹائمز‘ کےمطابق یورپی یونین نے اس ہفتے جو رپورٹ جاری کی ہے اُس میں اسرائیلی حکومت کی بستیوں کی تعمیراورقبضہ جاری رکھنے کی پالیسی کو دو مملکتوں والے اُس حل کےلیے واحد سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے جِس کی بدولت تشدد کے مارے مشرق وسطیٰ کے اس خطے کے لیے امن کی بحالی کو ممکن بنانا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ 27ملکوں پر مشتمل اس تنظیم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ غیر قانونی طور پر قبضے میں لائے گئے علاقے میں تیار ہونے والے مال کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے۔

اس رپورٹ میں خاص طور پر اُن تین یہودی بستیوں پر اعتراض کیا گیا ہے جو مشرقی یروشلم میں بنائی جارہی ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں تاکہ یروشلم دونوں مملکتوں کا دارالحکومت نہ بن سکے۔

اخبار کہتا ہے کہ نیو یارک یونیورسٹی کے عالمی امور کے مرکز کے پروفیسر الاں بن میئر نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جو یہ کوشش ہے کہ دیوار کھڑی کرکے اپنے آپ کو فلسطینیوں اور عربوں سے الگ تھلگ کیا جائے، اُس سے اُس کی قومی سلامتی کو تقویت نہیں پہنچے گی، بلکہ اُلٹا نقصان ہوگا۔
XS
SM
MD
LG