رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: طالبان سے بات چیت


’امید یہ کی جارہی ہے کہ پاکستان کے نئے قائد اپنے سویلین پیشرؤوں کے مقابلے میں مسلّح افواج اور انٹلی جینس اداروں پر تصرّف حاصل کرنے میں زیادہ موثّر ثابت ہونگے‘: واشنگٹن پوسٹ

’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ نواز شریف کی حکومت کے چار ماہ پُورے ہو گئے ہیں۔ لیکن، امریکہ کے لئے سیکیورٹی کے جو امور سب سے زیادہ اہم ہیں، اُن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اخبار کو شکائت ہے کہ طالبان سے وابستہ تنظیموں کو برابر پاکستان کی سر زمین کو افغانستان میں امریکی اہداف پر حملے کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے، اور ہندوستان کو ہدف بنانے والے دہشت گردوں کو بھی برابر کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستان میں قائم طالبان کی شاخ کے خلاف جنگ کرنے کے بدلے مسٹر نواز شریف نے ان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی تجویز رکھی ہے اور اُن ڈرون حملوں کی مذمّت برابر جاری رکھے ہوئے ہیں جن کی مدد سے طالبان اور القاعدہ کے سرکردہ کمانڈروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اس کے باوجود، اوبامہ انتظامیہ مسٹر شریف کو کُچھ مراعات دے رہی ہے، جن میں روکی ہوئی ایک ارب ڈالر کی امداد کو واگذار کرنا شامل ہے۔اور امید یہ کی جارہی ہے کہ پاکستان کے نئے قائد اپنے سویلین پیشرؤوں کے مقابلے میں مسلّح افواج اور انٹلی جینس اداروں پر تصرّف حاصل کرنے میں زیادہ موثّر ثابت ہونگے۔ اور اس طرح، بالآخر افغانستان میں امن کی ثالثی کرنے، بلکہ ملک میں انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے میں پاکستان کی طرف سے زیادہ تعاون میسّر ہوگا۔

اور اخبار کے خیال میں یہ معقول حکمت عملی ہے۔ 1999 ءمیں فوجی بغاوت میں اقتدار کھونے کے بعد اب دوبارہ وزرات عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نواز شریف ملک میں اتفاق رائے کو فروغ دینے اور احتیاط برتنے کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

اُس کو سراہتے ہوئے، اخبار کہتا ہے کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایک درجن سیاسی پارٹیوں کی حمائت حاصل کی ہے اور ہندوستانی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ بھی مکالمے کا عمل شروع کیا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ فوج پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔

انہوں نے ملک کی بیمار معیشت کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے فنڈز حاصل کئے ہیں اور وہ ملک میں توانائی کی قلّت پر قابو پانے کے لئے قدم اُٹھا رہے ہیں۔

ا
خبار کہتا ہے کہ وزیر اعظم نے جس اہلیت کا ثبوت دیا ہے اس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ وہ بالآخر فوج کے ساتھ مل کر طالبان اور دوسرے اسلام پسند جنگجؤوں کی طرف زیادہ معقول پالیسی اختیار کریں گے۔ اس وقت مجوّزہ مذاکرات انہونی بات لگ رہی ہے۔ طالبان نے نہائت کڑی شرطیں لگائی ہیں۔ اور متعدد اشتعال انگیز حملے کئے ہیں، پھر نواز شریف، منموہن سنگھ کی یقین دہانی کر چکے ہیں کہ ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں ملوّث پاکستانی ملزموں کی زیادہ سختی سے تفتیش کی جائے گی۔ صدر کرزئی کی درخواست پر طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ لیکن، افغان امن مذاکرات برابر معطّل ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستان اور اس ملک کے لئے امریکی عزائم کے درمیان جو بُعد ہے وہ کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ پاکستان طالبان کے بارے میں افغان حکومت کے موقّف پر بھی زیادہ فکرمند لگ رہا ہے۔ اور اس تحریک سے اُس کے اپنے سیاسی نظام کو جو خطرہ لاحق ہے، اُس کا بھی اُسے اب بہتر ادراک ہے۔

لیکن، اخبار کہتا ہے کہ مسٹر شریف کے لئے نہ صرف امریکہ کے خلاف سخت عوامی مخاصمت سے نمٹنا ہوگا، بلکہ فوج کے اُن عناصر سےبھی جو افغان اور کشمیری جہادیوں کی برابر ہمت افزائی کر رہے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ مسٹر شریف چاہیں گے کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انسداد دہشت گردی اور افغانستان سے ماورا یعنی تجارت، معاشی ترقّی اور سیکیورٹی کے امور کا بھی احاطہ کریں، اور اوبامہ انتظامیہ اس سمت جانے میں ضرور حق بجانب ہوگی۔ لیکن، بالآخر مسٹر شریف کے خلوص کے امتحان کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ آیا وُہ اسلامی انتہا پسندی کے خلاف فیصلہ کُن حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔


’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ جنوبی ہندوستان میں روس کی امداد سے قائم کیا گیا۔ ایک جوہری بجلی گھر بالآخر چالو کردیا گیا ہے اور اسے جنوب کے پاور گرِڈ سے ملا دیا گیا ہے۔ اور اس سال کے آخر تک وہان سے دسیوں لاکھوں صارفین کو توانائی مہیّا ہونا شروع ہو جائے گی۔

اخبار کہتا ہے کہ ہندوستان روس سے ایک اور ری ایکٹر کا سودا کر رہا ہے تاکہ اس کا جوہری توانائی کا سیکٹر اتنا پھیل جائے جس سے کوئلے اور درآمد شدہ تیل پر ملک کا انحصار کم کیا جائے۔


صدر اوبامہ کےصحت عامّہ کی نگہداشت کے قانون ناکام بنانے پر تلے ہوئے امریکی قدامت پسندوں کے خلاف جو فیصلہ کُن کامیابی اُنہیں کانگریس میں حاصل ہوئی ہے، اُس پر شماتت کا مظاہرہ نہ کرنے اور کسر نفسی سے کام لینے پر اخبار ’بالٹی مور سن‘ میں جُیولز وِٹ کورنے صدر کی تعریف کی ہے۔ وُہ کہتے ہیں، کہ ٹیکسس کے نو آموز سینیٹر ٹیڈ کروز نے، جن کی قیادت میں اس قانون کے خلاف مہم کے نتیجے میں امریکی حکومت دو ہفتے سے زیادہ عرصے تک بند رہی۔ نصف صدی قبل کےوس کانسن کے ری پبلکن سینیٹر جو میکارتھی کی یاد تازہ کردی جن کی کمیونزم دشمنی سے پھیلے ہوئے شعلوں کو بالآخر ان کی اپنی انتہا پسندی اور سینیٹ کے اندر کی مخالفت نے فرو کیا تھا۔
اور ان کے ساتھی سینیٹروں نے ایک قرارداد میں ان کی مذمت کی تھی۔ جُیولز وِٹ کور کہتے ہیں کہ ٹیڈ کروز ایک طرح لی میکارتھی ازم کی نمایندگی کرتے ہیں اور وہ بھی اسی قسم کی قرارداد کے حقدار ہیں۔
XS
SM
MD
LG