رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: شمالی کوریا کا جوہری دھماکہ


اقوام متحدہ میں امریکی مندوب، سوزن رائس شمالی کوریا کے دھماکے پر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے
اقوام متحدہ میں امریکی مندوب، سوزن رائس شمالی کوریا کے دھماکے پر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے

امریکی اور جاپانی فوجی طیاروں نےجزیرہ نُما کوریا کے مشرق میں ہوا میں اڑانیں بھریں، تاکہ تاب کار آئی سو ٹوپ کے ذریعے ہہ پتہ لگایا جائے کہ آیا پیانگ یانگ نے افزُدہ یورینیم کا استعمال کیا ہے: واشنگٹن پوسٹ

شمالی کوریا نے منگل کے روز جو ایک اور جوہری دھماکہ کیا ہے اُس کی امریکہ، چین اور دوسرے ملکوں نے مذمت کی ہے۔ اور ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہےکہ بین الاقوامی
سطح پر اس سنگین نکتہ چینی سے شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پروگرام کو آگے بڑھانے کے عزم میں سرِ مُو فرق نہیں آیا۔ تین ہفتوں تک شمالی کوریا انتباہ کرتا رہا ور بڑیں ہانکتا رہا اور منگل کو بالآخر اُسی پہاڑ کے اندر اِس نے یہ بم پھوڑا جہاں اس نے سابقہ دو بموں کا تجربہ کیا تھا۔


اخبار کہتا ہے کہ اس دھماکے سے شمالی کوریا نے اوبامہ انتظامیہ کے لئے اور جنوبی کوریا، چین اورجاپان کے نئے لیڈروں کے لئے وُہی چیلنج کھڑا کیا ہے جو اُن کے پیش رؤوں کو عشروں سے درپیش رہا ہے، یعنی ایسی حکومت سے کس طرح نمٹا جائے جس نے اپنی بقا اور فوجی قوّت کو اپنے عوام کی بہبود پر مقدّم بنا کر رکھا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ شمالی کوریا کے مطابق اب کی بار بم کا سائز سابقہ بموں کے مقابلے میں چھوٹا تھا جِس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا شمالی کوریا نے وسیع پیمانے کی تباہی لانے والے ہتھیاروں کے حصول کی کوشش میں کتنی پیشرفت کر لی ہے اور آیا اُس نے اس بم میں سابقہ بموں میں استعمال ہونےوالے افزودہ پلُوٹنیم کی جگہ افزودہ یورینیم کا استعمال کیا ہے۔ چنانچہ، امریکی اور جاپانی فوجی طیاروں نے جزیرہ نُما کوریا کے مشرق میں ہوا میں اڑانیں بھریں تاکہ تاب کار آئی سو ٹوپ کے ذریعے یہ پتہ لگایا جائے کہ آیا پیانگ یا نگ نے افزُدہ یورینیم کا استعمال کیا ہے۔ اگرچہ، سائینس دانوں کا کہنا ہے کہ یورنیم کے مواد سے کئے ہوئے دھماکے کا سراغ لگانا مُشکل ہوتا ہے۔

’ واشنگٹن پوسٹ‘ کہتاہے کہ شمالی کوریا کا یہ دہماکہ ایک مہر بند ٹنل میں کیا گیا تھا جو اُس نے ایک دُور اُفتادہ پہاڑ کے اندر اُفقی زاوئے میں بنا رکھی ہے اور اِس سے زلزلے کی مختصر سی کیفیت پیدا ہوئی تھی اور سنہ 2006 اور سنہ 2009 کے دھماکوں کے مقابلے میں یہ دھماکہ ذرا زیادہ طاقت ور تھا،اور ظاہر ہوتا تھا کہ اس نے اپنی فنّی صلاحیت اتنی بڑھا لی ہے کہ ایک ایسا جوہری بم بنایا جائے جسے ایک دور مار کرنے والے بیلسٹک مزائیل میں نصب کیا جا سکے۔

اخبار کہتا ہے کہ اگر شمالی کوریا نے یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے ،تو یہ ملک علاقائی خطرے سے بڑھ کر ایک عالمی خطرہ بن جائے گا، خاص طور پر پڑوسی ملکوں کے لئے ، جو اب تک اُس کے طرز عمل پر اثر انداز نہیں ہو سکتے ہیں ۔

یہ تجربہ نئے لیڈر کِم جانگ ان ، کی عملداری میں کئے جانے والا پہلا ایسا تجربہ تھا جو ایسالگ رہاہے ، اپنے باپ اور دادا کی طرح امریکہ کو اپنا ازلی دشمن سمجھتا ہے۔ منگل کے ایک بیان میں شمالی کوریا نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر امریکہ کی معاندانہ پالیسیاں جاری رہیں تو اُس صورت میں وُہ اس بھی زیادہ سنگین اقدامات کرے گا۔
چنانچہ، جیسا کہ اخبار نے کہا ہے منگل کے روز ایک بیان میں صدر اوبامہ نے کہا ہے کہ اس قسم کی اشتعال انگیزیوں کے طُفیل شمالی کوریا زیادہ محفوظ نہیں ہو سکتا۔ ایک مضبوط اور خوشحال قوم بننے کا مقصد حاصل کرنا تو کُجا، شمالی کوریا دنیا سے ایک کٹا ہوا ملک ہے جس کی وسیع پیمانے کے تباہی لانے والے ہتھیار بنانے کی ہوس نے اُسے کنگا ل کر رکھا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ سیکیورٹی کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں کہ آیا شمالی کوریا واقعی ایک چھوٹا وار ہیڈ بنانے میں کامیا ب ہوا ہے ۔

ماضی میں شمالی کوریا اپنے دعووں میں بعض اوقات مبالغہ آرئی سے کام لیتا رہا ہے اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر شمالی کوریا اس میں پورا عبُور حاصل کرنا چاہتا ہے ، تو اُسے بار بار یہ تجربے دُہرانے پڑیں گے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ منگل کو چین کے انتباہوں کےباوجود شمالی کوریا نے جو جوہری تجربہ کیا ہے اُس نے نئے چینی لیڈر، ذی جِن پِنگ کےلئے یہ مُشکل کھڑی کردی ہے کہ آیا اُنہیں اقوام متحدہ کی تعزیرات میں اضافے کی حمائت کرکے شمالی کوریا کو ذرا سا ناراض کرنا چاہئیے یا پھر چینی تیل اور سرمایہ کاری کی وہ امداد جس کی بنا پر شمالی کوریا کا کاروبار چل رہا ہے، یکسر بند کرنی چاہئیے ، تاکہ شمالی کوریا کی حکومت کو جھنجھوڑا جائے۔

اخبار کہتا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے نئے سربراہ مسٹر ذی کے لئے یہ ایک بڑی آزمائش ہے۔ وُہ کہہ چُکے ہیں کہ امریکہ اور چین کے مابین دو بڑی طاقتوں کے شایانِ شاں ایک نئے قسم کا رشتہ اُستوار کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ، اخبار کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں مسٹر ذی کا شمالی کوریا کے ساتھ کیا برتاؤ رہے گا ، اُس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ وہ کس قسم کے لیڈر ہیں اور یہ کہ واشنگٹن کے ساتھ اُنہیں کس قسم کے تعلقات کی توقّع ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات میں بہتری لانے کے لئے مسڑ ذی پر لازم ہوگا کہ وہ شمالی کوریا کی طرف اپنا وطیرہ سخت کریں ، اوراُس کے ساتھ اپنے اثرونفوذ کوبروئے کار لاتے ہوئے اُسے اپنے جوہری پروگرام کی رفتارپر روک لگانے پر مجبور کریں۔

اخبار کہتا ہے کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتیجے میں یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ امریکہ جنوب مشرقی ایشیا ، خاص طور پر جاپان میں اپنی بیلسٹک مزائیل دفاعی کوششیں تیز تر کردے گا اور یہ صورت حال چین کے لئے اچھی نہ ہوگی۔
XS
SM
MD
LG