رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: افغانستان سے متعلق پیش گوئیاں


کابل
کابل

امریکی عہدہ دارو ں کا موقّف ہے کہ اگر 8000 امریکی فوجوں کو رہنے کی اجازت نہ دی گئی، تو طالبان واپس آسکتے ہیں اور القاعدہ کو محفوظ آماجگاہیں مل جائیں گی

’واشنگٹن پوسٹ‘ نے امریکی انٹلی جنس کے عہدہ داروں کے حوالے سے سنہ 2014 کے بعد کے افغانستان کے بارے میں جو پیشگوئیاں کی تھیں، انہیں افغانستان نے بے بنیاد قرار دے کر ردّ کر دیا ہے۔

اِن پیش گوئیوں میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پچھلے تین سال کے دوران جو پیش رفت کی ہے، اس کے بیشتر حصّے پر سنہ 2017 تک پانی پھر جائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر واشنگٹن اور کابل کے مابین سنہ 2014 کے بعد افغانستان میں ایک بین الاقوامی دستے کو برقرار رکھنے پر کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوتے، تو افغانستان نراج کا شکار ہو جائے گا۔


اب صدر حامد کرزئی کے ترجمان، ایمل فوضی نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ ہم اس کو بے بنیاد سمجھتے ہیں اور سختی کے ساتھ ردّ کرتے ہیں۔

صدر کرزئی نے سیکیورٹی کے اُس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس کی بنیاد پر بعض امریکی فوجوں کو افغانستان میں رہنے کی اجازت مل جاتی، جس کے بعد امریکہ اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں سخت کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔

امریکی عہدہ دارو ں کا موقّف ہے کہ اگر 8000 امریکی فوجوں کو رہنے کی اجازت نہ دی گئی، تو طالبان واپس آسکتے ہیں اور القاعدہ کو محفوظ آماجگاہیں مل جائیں گی۔ اس معاہدے پر دستخط ہوجانے چاہئیں، تاکہ امریکہ اور اُس کے اتّحادی اربوں ڈالر کی امداد فراہم کرتے رہیں۔ ایسے معاہدے کے بغیر امریکہ اپنی تمام فوجیں ملک سے نکال لے گا اور افغان فوجوں کو اپنے طور سے طالبان سے لڑنے کے لئے چھوڑ دیا جائے گا۔


افغان صدر کے ترجمان ایمل فوضی نے اس پر کہا ہے کہ اگر ایسی مایوس کن رپورٹوں کی تشہیر کا مقصد امن کی مساعی کے تحت بعض علاقے طالبان کے کنٹرول میں دینا ہے اور اگر افغانستان کے بعض علاقوں کو طالبان کے حوالے کرنا ہے، تو ہم ہرگز اس کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ اسے کامیاب ہونے دیں گے۔ طالبان کے لئے واپس آنے کا واحد طریقہ سیاسی عمل ہے۔ پچھلے دو سال سے طالبان کو امن مذاکرات میں شامل کرنے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں، اور افغان باغی جو غیر ملکی فوجوں کو ملک سے نکال باہر کرنے اور ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کے لئے برسرپیکار ہیں، کرزئی کو امریکیوں کا کٹھ پُتلی سمجھتے ہیں اور اُن کی مذمّت کرتے ہیں، جب کہ کرزئی حال ہی میں کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکیوں نے اُنہیں بعض علاقوں کو طالبان کے حوالے کرنے کا مشورہ دیا ہے، تاکہ امن مذاکرات شرُوع ہوں۔

مسٹر کرزئی نے اس کی بھی تردید کی ہے کہ امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی کے معاہدے کی عبارت کے بارے میں اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں یہ بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ امریکہ افغانستان سے جائے گا نہیں۔


’واشنگٹن ٹائمز‘ کی رپورٹ ہے کہ وُہ وقت دور نہیں جب ڈرون طیارے امریکی فضاؤں میں عام ہو جائیں گے اور اوبامہ انتظامیہ کے ایک اعلان کے مطابق، ڈرون طیاروں کی آزمائش کر نے کے لئے امریکہ میں چھ جگہوں کا انتخاب کیا گیا ہے، جہاں ان طیاروں کی اگلے کئی برسوں کے دوران آزمائشی پروازیں ہوں گی، جن کا مقصد یہ ہے کہ ڈروں طیاروں کو ستمبر 2015 ءتک بحفاظت فضائی حدود میں اُڑنے کی اجازت دی جائے گی۔

انسانی زندگی کے بارے میں چارلز ڈاروِن کے نظریہٴارتقاٴ کو انیسویں سے ایک ناقابل تردید حقیقت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ البتہ، ’شکاگو ٹربیون‘ نے رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ کے ایک تہائی لوگ اس نظرئے کو یکسر مانتے ہی نہیں، جب کہ ری پبلکن پارٹی کے پیروکاروں میں اس نظرئے کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پِو تحقیقی ادارے نے یہ جائزہ ٹیلیفون پر لیا تھا جس کے مطابق، ساٹھ فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ انسان اور دوسرے جاندار ارتقائی منازل طے کرکے اپنی موجودہ شکل کو پہنچے ہیں۔ لیکن، 33 فی صد کی یہ رائے ہے کہ انسان اپنی موجودہ شکل میں اور دوسرے جاندار ابتدائے آفرینش ہی سے اَسی شکل میں موجود تھے۔

جائزے کے مطابق، صرف43 فیصد ری پبلکن اور 67 فی صد ڈیمو کریٹ ارتقاٴ کے نظرئے کو مانتے ہیں۔ چار سال قبل یہ تناسّب 54 فی صد اور 64 فی صد تھا۔

نظریہٴ ارتقاٴ کو نہ ماننے والوں میں سر فہرست ایونجیلیکل پروٹسٹنٹ ہیں، جن کا عقیدہ ہے کہ انسان کی شروع دن سے یہی ساخت اور شکل تھی۔

اس جائزے میں جتنے لوگوں نے شرکت کی اُن میں سےایک چوتھائی کا عقیدہ ہے کہ اس دنیا کے جانداروں کا ارتقائی عمل ایک اعلیٰ تر ذات کی رہنمائی میں مکمل ہوا۔
XS
SM
MD
LG