رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: فلسطینیوں کا امن مذاکرات سے انکار؟


اسرائیلی بستیاں
اسرائیلی بستیاں

امن مذاکرات کی بحالی سے متعلق کسی باقاعدہ فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ لیکن، رملّہ میں فلسطینی لیڈروں کے ایک اہم اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ پیش کردہ تجاویز سے اُن کے مطالبے پُورے نہیں ہوتے: لاس انجلس ٹائمز

’لاس انجلس ٹائمز‘ کی اطلاع ہے کہ امریکہ کے زبردست دباؤ کے باوجود، فلسطینی لیڈروں نے اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے سے متعلّق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی تجاویز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ کسی باقاعدہ فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن، رملّہ میں فلسطینی لیڈروں کے ایک اہم اجلاس کے بعد بتایا گیا کہ اِن تجاویز سے اُن کے مطالبے پُورے نہیں ہوتے۔ اِس کے بعد، مذاکرات میں پیش رفت سے متعلّق تمام امّیدیں خاک میں مل گئی ہیں۔

فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ 1967 ءمیں اسرائیل نے جِن فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا، اُن پر بستیوں کی تعمیر بند کردے اور یہ کہ آئیندہ مذاکرات 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ہی ہوسکتے ہیں۔ اب تک اسرائیل یہ دونوں مطالبے ردّ کرتا آیا ہے۔

پاکستان کے جِس کمیشن نے ایبٹ آباد میں اوسامہ بن لادن کی کمین گاہ پر امریکی کمانڈوز کے حملے کی تحقیقات کی تھی اور 200 افراد کا انٹرویو کرنے اور ہزاروں دستاویزوں کی چھان بین میں دو سال گُزار دئے تھے، اُس کی رپورٹ کو صیغہٴراز میں رکھا گیا تھا۔

لیکن، بالآخر اِس کی ایک کاپی طشت از بام ہوگئی اور الجزیرہ نے اُسے شائع کر دیا۔

’کرسچن سائینس مانٹر‘ اِس کے بعض اقتباس شائع کرتے ہوئے کہتا ہےکہ بن لادن کے لئے یہ کیسے ممکن ہوا کہ اُس نے اپنی موجودگی کا کسی کو پتہ ہی نہیں چلنے دیا؟

اِس کی وجہ کمیشن کی رپورٹ میں اجتماعی نا اہلی اور غفلت بتائی گئی ہے۔ اور رپورٹ کے ایک ایک صفحے پر ایسے واقعات کا ذکر ہے جس میں بن لادن بال بال بچ گئےاور جن سے لاپرواہی، نا اہلی اور غفلت کا ثبوت ملتا ہے۔ ایک مرتبہ ٹریفک کے ایک سپاہی نے بن لادن کو تیز رفتاری کے جُرم میں روک لیا تھا۔ لیکن، اُس کے کویتی باڈی گارڈ نے فوراً معاملہ رفع دفع کر دیا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ آیا اس کے لئے رِشوت دی گئی تھی یا سپاہی سرے سے ہی بے خبر تھا۔


رپورٹ کے مطابق بن لادن نے ایبٹ آباد میں اپنی رہائش کے لئے جگہ فرضی نام سے خریدی تھی۔ باوجودیکہ، قانون کے تحت وہاں کوئی غیر ملکی زمین نہیں خرید سکتا۔ بن لادن کو اپنی شناخت کو درپردہ رکھنے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ وُہ مکان سے باہر کؤ بوائے ہیٹ پہن کر نکلتا۔ اور انگُور کی بیل کے سائے تلے چلتا، تاکہ ہوائی جہاز سے اُس کا سُراغ نہ لگایا جاسکے۔ احاطے میں بجلی اور گیس کے چار میٹر لگائے گئے تھے، تاکہ ان دونوں چیزوں کے بُہت زیادہ استعمال کو درپردہ رکھا جائے۔

امریکہ نے کیونکر اتنی آسانی سے یہ کامیاب حملہ کیا۔ اس پر رپورٹ میں امریکہ کےایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہےکہ یہ اتنا ہی آسان ثابت ہوا جیسے گھاس کاٹنا۔ اور پاکستان کے لئے سُبکی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ جب پاکستانی طیارے حرکت میں لائے گئے تو امریکی ہیلی کاپٹروں کو پاکستانی فضائی حدُود سے نکلے ہوئے بیس منٹ ہو چُکے تھے۔

بن لادن نے کُل کتنا عرصہ پاکستان میں گُذارا؟ اِس پر اخبار کہتا ہے کہ وُہ اپنے کُنبے سمیت سنہ 2002 میں پاکستان میں وارد ہوا۔ کُچھ عرصہ پشاور اور قبائیلی علاقے میں گُزار کروُہ سیاحت کے معروف علاقے وادئی سوات میں منتقل ہو گیا ، جس کی ایک ماہ بعد وُہ ہری پور گیا اور سنہ 2005 میں بالآخر اپنی بیویوں، بچوں ارپوتوں کے ساتھ ایبٹ آباد پہنچ گیا۔

امریکی تحقیقی ادارے پِو ریسرچ سینٹرPew Research Centerکے مطابق، دنیا بھر میں امریکہ کے بارے میں لوگوں کا تاثر، چین کے مقابلے میں زیادہ مثبت ہے، لیکن بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ چین ایک بڑھتی ہوئی طاقت کی حیثیت سے اُبھرتا جا رہا ہے۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، اس ادارے نے 39 ملکوں میں رائے عامّہ کا جائزہ لیا ہے، جس میں بُہت سُوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بالآخر چین کا امریکہ کی جگہ عالمی سُوپر طاقت کی حیثیت سے اُبھرنا ناگُزیر ہے۔ امریکہ کو اب بھی بُہت سارے مُلک سب سے بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن، بیشتر باور کرتے ہیں کہ وقت گُزرنے کے ساتھ بالآخر یہ حیثیت چین حاصل کرلے گا۔ لوگوں کی بدلتی ہوئی رائے کے باوجود، اس جائزے کے مطابق سمندر پار ملکوں میں امریکہ کے بارے میں بہتر تاثُّر پایا جاتا ہے۔

چین کی سائینسی اور فنیاتی ترقّی کے لئےاُسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، خاص طور پر افریقہ اور لاطینی امریکہ میں۔ لیکن، چینی عقیدوں اور عوامی کلچر کو کم پذیرائی حاصل ہے۔ لاطینی امریکہ اور پائین صحرا افریقی ممالک میں چین کی مقبولیت کی وجہ حالیہ برسوں میں وہاں چین کی بھاری سرمایہ کاری بتائی گئی ہے۔

جائزے کے مطابق، امریکہ اور چین دونوں کی عسکری صلاحیت سے دوسرے ممالک کو پریشانی لاحق ہے۔ اور لوگوں نے امریکہ کے ڈرون پروگرام پر خاص طور پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

اس جائزہ رپورٹ کے مطابق، صرف تین ملکوں، یعنی اسرائیل، کینیا اور خود امریکہ میں انتہا پسندوں پر امریکی ڈروں حملو ں کی حمائت کا اظہار کیا گیا۔

اخبار کہتا ہے کہ جہاں تک شخصی آزادیوں اور حقوق انسانی کا تعلّق ہے، امریکہ کے بارے میں لوگوں کی رائے چین کے مقابلے میں کہیں بہتر پائی گئی۔ لیکن، اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ یہ جائزہ مارچ سے مئی کے درمیانی عرصے میں لیا گیا تھا، جب امریکی حکومت کی لوگوں پر نظر رکھنے کے اختیار کے بارے میں یہ انکشاف نہیں ہوا تھا کہ اس میں عوام کی فون کالوں اور اِی میلوں کے بارے میں تفصیلی اعداد و شمار اکٹھا کئے جاتے ہیں۔
XS
SM
MD
LG