رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: یمن کا استحکام


’بوسٹن گلوب‘ کہتا ہےکہ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہےکہ وُہاں القاعدہ نےجو پھر سر اُٹھایا ہے اُس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ القاعدہ کے نمبر دو لیڈر ایمن الظواہری نے فون کیا ہوگا. بلکہ, اس کی وجہ یمن کا سیاسی تناؤ ہے

امریکہ کی طویل وقتی سلامتی کا تقاضہ ہے کہ یمن میں ایک مستحکم حکومت ہو۔ اس عنوان سے ’بوسٹن گلوب‘ ایک ادرائے میں کہتا ہے جزیرہ نما عرب میں بالآخر القاعدہ کے خلاف جنگ اب انتہا کو پہنچ چکی ہے اور پچھلے دو ہفتوں کے دوران اوبامہ انتظامیہ نے یمن میں مشتبہ دہشت گرد ٹھکانوں پر کم از کم پانچ ڈرون حملے کئے ہیں۔

اخبار کہتا ہےکہ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہےکہ وُہاں القاعدہ نےجو پھر سر اُٹھایا ہے اُس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ القاعدہ کے نمبر دو لیڈر ایمن الظواہری نے فون کیا ہوگا. بلکہ، اس کی وجہ یمن کا سیاسی تناؤ ہے۔ ’ہنگامی حالات میں ڈرون حملے لازمی ہتھیار کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ لیکن، طویل وقتی نکتہٴ نظر سے امریکی سیکیورٹی کا راز اس میں ہے کہ یمن میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت ہو۔ چنانچہ، اوبامہ انتظامیہ کو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس حکومت کو تقویت پہنچائے‘۔

اخبار کہتا ہے کہ ایک عشرے تک جزیرہ نما عرب کی القاعدہ تنظیم ایک چھوٹی سی گوریلا فوج تھی، جو پہاڑوں میں چھپی ہوئی تھی اور یمنی حکومت کے وجود کو اس سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ لیکن، علی عبداللہ صالح نے عشروں پر محیط اپنے آہنی دور حکومت کو شمال کے شیعہ باغیوں اور جنوب کے علیٰحدگی پسندوں کی سرکوبی میں گزار دیا۔ اور جب2006 ء تک صالح نے القاعدہ پر قابو پالیا تو امریکی فوج نے اپنی امداد کم کرنی شروع کی، جس کے بعد حالیہ برسوں میں القاعدہ نے پھر سر اُٹھایا ہے اور بض لوگ اس کے لئے علی صالح کو الزام دیتے ہیں، تاکہ امریکی امداد جاری رہنے کا جواز پیدا کیا جائے۔


اخبار کا کہنا ہے کہ اب صالح کے جانشین عبُد ربُو منصُوّر ہادی جس طرح ملک کے گوناں گوں مسائیل سے نمٹ رہے ہیں، وُہ قابل ستائش اور امریکی حمائت کا مستحق ہیں۔ امریکہ کو ان کی حمائت جاری رکھنی چاہئے، تاکہ عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ القاعدہ کے خلاف امریکی فوج کی کاروائی زور دار ہونی چاہئیے تاکہ موجودہ خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ لیکن، وہ اس انداز کی ہو کہ اس نازک مرحلے پر یہ کمزور اتحادی کسی خطرے کا شکار بھی نہ ہو۔

امریکی محکمہٴخارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اسرئیلی فلسطینی امن مذاکرات کا اگلا دور یروشلم میں اگلے ہفتے منعقد ہوگا۔ ’انٹر نیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کہتا ہے کہ امن مذاکرات کے اس نئے سلسلے کا آغاز پچھلے ہفتے واشنگٹن میں ہوا تھا۔ اور یہ وزیر خارجہ جان کیری کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جنہوں نے انہیں اپنی اولیں ترجیح بنا رکھا ہے۔اس کامقصد نو ماہ کے اندر اندر ایک جامع امن معاہدہ طے کرنا ہے، جس کے نتیجے میں ایک خود مختار فلسطینی مملکت وجود میں آئے۔

اخبار کہتا ہے کہ اگلے اجلاس کے آغاز سے قبل سینئیر فلسطینی مذاکرات کار صائب عریکات نے محکمہٴخارجہ کے نام ایک خط میں اس بات بات پر احتجاج کیا ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے کی سرزمین پر 800 نئے نکان تعمیر کرنے کی منظوری دی ہے۔

خط میں مسٹر عریکات نے کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہے کہ اسرائیل امن مذاکرات کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ا تنے مشکل مذاکرات سے امن معاہدے کی جانب کیونکر پیش رفت ممکن ہوگی۔

اخبار نے محکمہٴخارجہ کے ایک عہدہ دار کے حوالے سے بتایا ہےکہ امریکہ نے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے اسرائیلی بستیوں کی تعمیر بند کرنے کی شرط نہیں لگائی تھی اور یہ کہ مکان تعمیر کرنے کی بعض اسرئیلی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ البتہ، امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ یہ معاملہ ضرور اُٹھایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے دونوں فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ تحمّل سے کام لیں اور مذاکرات کے لئے مثبت حالات پیدا کریں۔

لاہور میں امریکی قونصل خانے کے غیر ضروری عملے کو عارضی طور پر وہاں سے پٹانےاور امریکی شہریوں کو پاکستان کے سفر سے احتراز کرنے کی ہدائت پر ’اٹلانٹا جرنل کانسٹی ٹیوشن‘ اخبار کہتا ہے کہ یہ قدم پاکستان کے مختلف علاقوں میں جنگجوؤں کے پے درپے حملوں کے تناظُر میں اُٹھایا گیا ہے۔

اخبار نے یاد دلایا ہےکہ ماضی میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں امریکی قونصل خانوں پر حملے ہو چکے ہیں۔


اور واشنگٹن کو بن غازی لبیا کے سفارتی دفتر پر انتہا پسندوں کی طرف سے پچھلے سال حملے پر برابر صدمہ ہے، جس میں امریکی سفیر سمیت چار امریکی سفارت کار ہلاک ہو گئے تھے۔
XS
SM
MD
LG