رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: شامی صدر بشار الاسد کہاں ہیں؟


اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر' نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں ہفتے ایک بم حملے میں وزیرِ دفاع سمیت تین فوجی جرنیلوں کی ہلاکت کے بعد شام کے صدر بشار الاسد روپوش ہوگئے ہیں۔

اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر' نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں ہفتے ایک بم حملے میں وزیرِ دفاع سمیت تین فوجی جرنیلوں کی ہلاکت کے بعد شام کے صدر بشار الاسد روپوش ہوگئے ہیں۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:04:26 0:00


اپنی ایک رپورٹ میں اخبار نے لکھا ہے کہ شام میں گزشتہ 17 ماہ سے جاری حکومت مخالف تحریک اب مکمل بغاوت میں تبدیل ہوگئی ہے جس نے دارالحکومت دمشق کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ دمشق میں گزشتہ ایک ہفتے سے باغیوں اور سرکاری افواج کے مابین جھڑپیں ہورہی ہیں اور اس دوران ایک بم حملے میں وزیرِ دفاع سمیت اہم مشیروں کی ہلاکت نے بشار الاسد کی اقتدار پر گرفت پہ سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ دارالحکومت کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر صدر اسد منظرِ عام سے غائب ہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق وہ اپنے اہلِ خانہ سمیت دمشق سے ساحلی شہروں لتاکیہ یا طرطوس منتقل ہوگئے ہیں جہاں ان کے ہم عقیدہ علوی فرقے کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔

لبنان میں مقیم شامی حزبِ اختلاف کے ایک رہنما نے شامی فوج کے ایک افسر کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ دمشق بم حملے کے فوری بعد صدر اسد اپنی اہلیہ اور تین بچوں سمیت طرطوس منتقل ہوگئے تھے جہاں روسی بحریہ کا ایک فوجی اڈہ بھی واقع ہے۔
جیسے جیسے شامی حکومت پر دبائو بڑھ رہا ہے وہ ان ساحلی علاقوں کی جانب پسپائی کی تیاری کر رہی ہے
تجزیہ کار


تاہم برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' نے حزبِ اختلاف کے رہنمائوں اور ایک مغربی سفارت کار کے حوالے سے کہا ہے کہ صدر اسد لتاکیہ میں ہیں جو علوی اکثریتی علاقے کا سب سے بڑا شہر ہے۔ مذکورہ شہر سے 12 میل دور ایک صدارتی محل موجود ہے جہاں انتہائی سخت پہرے میں اسد خاندان عموماً گرمیوں میں قیام کرتا ہے۔

اس کے برعکس شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ صدر بدستور دارالحکومت میں موجود ہیں۔ سرکاری ٹی وی نے بشار الاسد کی ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں وہ نئے وزیرِ دفاع سے حلف لے رہے ہیں۔

لیکن علاقائی امور کے بعض ماہرین اور تجزیہ کاروں نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ جیسے جیسے شامی حکومت پر دبائو بڑھ رہا ہے وہ ان ساحلی علاقوں کی جانب پسپائی کی تیاری کر رہی ہے جہاں اسد خاندان اور دیگر مرکزی حکومتی عہدیداران کے ہم عقیدہ علوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔


امریکی جنگوں پر صدارتی امیدواران کی خاموشی

امریکی اخبار 'بالٹی مور سن' نے بیرونِ ملک جاری امریکہ کی فوجی کاروائیوں پہ واضح موقف اپنانے سے گریز پر صدر براک اوباما اور آئندہ صدارتی انتخاب میں ان کے ری پبلکن حریف مٹ رومنی پر تنقید کی ہے۔

اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق امریکہ اس وقت دنیا کے چار ملکوں میں براہِ راست اور دیگر درجنوں ممالک میں خفیہ فوجی کاروائیاں کر رہا ہے لیکن نہ تو دونوں صدارتی امیدواران اس اہم موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی یہ معاملہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔
امریکی صدر براک اوباما اور ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رومنی
امریکی صدر براک اوباما اور ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رومنی

'بالٹی مور سن' لکھتا ہے کہ اس وقت امریکہ کے 87 ہزار فوجی افغانستان میں تعینات ہیں جہاں ان میں سے کچھ 2014ء کے بعد بھی موجود رہیں گے۔ افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان میں بھی امریکہ حالتِ جنگ میں ہےجہاں اس کا زیادہ تر انحصار ڈرون طیاروں اور برسرِ زمین موجود اپنے بیسیوں اہلکاروں پر ہے۔

امریکی ڈرون طیارے اور 'اسپیشل آپریشنز فورسز' یمن اور صومالیہ میں بھی دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائی میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی بحریہ کے جہاز بحیرہ ہند میں انسدادِ قزاقی کی مہم پر مامور ہیں جب کہ خلیجِ فارس میں ایران کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں۔

امریکی فوجی دستے مغربی افریقی ممالک اور فلپائن کی افواج کو انسدادِ دہشت گردی کی تربیت دے رہے ہیں جب کہ کئی فوجی وسطی افریقی ممالک کی افواج کے ساتھ مل کر مقامی مزاحمت پسند تنظیم 'لارڈز ریزسٹنس آرمی' کا صفایا کرنے پر مامور ہیں۔

'بالٹی مور سن' لکھتا ہے کہ یہ تمام وہ فوجی مشنز ہیں جن کے بارے میں امریکی عوام اور ذرائع ابلاغ جانتے ہیں جب کہ امریکی افواج کئی ایسی کاروائیوں میں بھی ملوث ہیں جن کی عوام یا ذرائع ابلاغ کو بھنک بھی نہیں پڑتی۔ خود امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ کے 'اسپیشل آپریشنز' دستے 100 سے زائد ممالک میں خفیہ کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
امریکی فوجی حکام کے مطابق امریکہ کے 'اسپیشل آپریشنز' دستے 100 سے زائد ممالک میں خفیہ کاروائیوں میں مصروف ہیں۔
بالٹی مور سن


اخبار نے لکھا ہےکہ امریکی افواج کے دنیا بھر میں اس قدر وسیع پیمانے پر کاروائیوں میں مصروف ہونے کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ معاملہ سیاست دانوں کے ایجنڈے میں سرِ فہرست ہوتا ۔ لیکن ایسا نہیں ہے اور آئندہ صدارتی انتخاب کے دونوں مرکزی امیدواران اس موضوع پر اظہارِ خیال سے گریز کرتے آئے ہیں۔

'بالٹی مور سن' لکھتا ہے کہ دونوں صدارتی امیدواران کی اس معاملے پر خاموشی کی ایک بڑی وجہ ا ن جنگوں سے امریکی عوام کی بڑھتی ہوئی بیزاری ہے۔ لیکن اس کے باوجود صدر اوباما اور مٹ رومنی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صدارتی انتخاب سے قبل ان جنگوں سے متعلق اپنے منصوبوں اور عزائم پر امریکی عوام کو ااعتماد میں لیں۔
XS
SM
MD
LG